1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریسٹ کینسر کی تشخیص : نابینا خواتین کا تعاون

25 اکتوبر 2009

نابینا خواتین میں چھونے کی غیر معمولی حِس کو خواتین میں بریسٹ کینسر کی درست تشخیص کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام کو 'ڈِسکورنگ ہینڈز' یعنی دریافت کرنے والے ہاتھوں کا نام دیا گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/ dpa

یہ طریقہ دراصل ایک جرمن گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر فرانک ہوفمان کی تخلیق ہے۔ ڈاکڑ ہوفمان نے دو سال قبل ایسی بریل اسڑپس تیار کیں، جن کے ذریعےبینائی سے محروم خواتین، بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے مریضہ کی چھاتی کا معا ئنہ کرتے ہوئے بالکل درست مقام کی نشاندہی کرسکتی تھیں۔ ان اسٹرپس کی مدد سے کینسر کی گلٹیوں کی نشاندہی کی تربیت کے بعد نابینا خواتین اپنی چھونے کی حس کے ذریعے تشخیص میں مدد کرنے والی یاMedical Tactile Examiners (MTUs) بن گئی ہیں۔

بریسٹ کینسر سے آگاہی کے لئے دُنیا بھر میں اقدامات کئے جاتے ہیںتصویر: AP

ان کی محسوس کرنے کی غیر معمولی حس ایسی کسی بھی چھوٹی سی گلٹی کی نشاندہی کر سکتی ہے جو کبھی کبھی بینا ڈاکٹر بھی دریافت نہیں کر پاتے۔

جرمنی میں ایسن یونیورسٹی ویمن کلینک کے اعدادوشمار کے مطابق چھاتی کے سرطان کے چار سو کیسسز کی تشخیص میں نابینا خواتین یعنی ایم ٹی یوز نے ڈاکٹروں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں اور بہت چھوٹی رسولیوں کی موجودگی کی تشخیص میں کامیابی حاصل کی تھی۔

اس طریقے کے مطابق ایک مرتبہ اس اسڑپ کو چھاتی کے مخصوص حصوں پر رکھ دیا جاتا ہے، جس کے بعد ایم ٹی یوز بریل کا استعمال کرتے ہوے ڈاکڑ کو گلٹی کی موجودگی کی جگہ کی بالکل صحیح نشاندہی کر سکتی ہیں۔ اس طریقہ کار کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ بہت چھوٹی گلٹی کی بروقت تشخیص ہو جائے تو اس سے نہ صرف مرض کے بڑھنے سے پہلے اس کی شناخت ہو جاتی ہے بلکہ اسکا مؤثرعلاج بھی ممکن ہے۔

دوسری جانب ڈاکڑ ہوفمان کہتے ہیں کہ ایم ٹی یوز کی وجہ سے مریض کا تسلی سے معائنہ بھی ممکن ہو گیا ہے کیونکہ پہلے وقت کی کمی کے باعث اکثر ایک مریض کے معائنے کے لیے ان کے پاس چند ہی منٹ ہوا کرتے تھے جبکہ ایم ٹی یوز ہر مریض کے معائنے کے لئے آدھا گھنٹہ تک وقف کر دیتی ہیں۔

گزشتہ برس اکتوبر کو بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ قرار دیا گیا، اس موقع پر وائٹ ہاؤس کو گلابی قمقوں سے روشن کیا گیاتصویر: AP

ڈاکڑ ہوفمان کے مطابق اس پروگرام کی تربیت جرمن شہر ڈیورین کے ایک ادارے میں ایسی خواتین کو دی جاتی ہے جو بینائی میں کمزوری یا مکمل نابینا ہونے کے بعد طب کے شعبے میں اپنا روزگار جاری نہیں رکھ سکی تھیں۔ اب تک اس پروگرام کے تحت دس نابینا خواتین کو تربیت دی جاچکی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ ایم ٹی یوز ڈاکٹروں کا نعم البدل بن گئی ہیں بلکہ یہ خواتین دارصل اپنی تشخیص کی رپورٹ ڈاکٹر کو ہی پیش کرتی ہیں، جو بعدازاں علاج کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔

جرمنی میں اس منصوبے کی آزمائشی مدت سال دوہزار چھ سے دوہزار آٹھ تک مکمل ہوچکی ہے۔ اب امید کی جارہی ہے کہ سال دوہزار دس تک ہرسال بیس ایم ٹی یوز کو تربیت دے کر تیار کیا جائے گا۔ جرمنی میں مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کی جانب سے اس پروگرام کو کامیاب قراردیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ہوفمان کے مطابق اب دیگر یورپی ممالک بھی اسی طرح کا پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں آئرلینڈ، فرانس، ڈنمارک اور آسٹریا شامل ہیں۔


رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: ندیم گِل

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں