بریٹ کیواناح نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھا لیا
7 اکتوبر 2018
جنسی الزامات کا سامنا کرنے والے قدامت پسند امریکی جج بریٹ کیواناح نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال کی ہیں۔ اس پیشرفت کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/Senate TV
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی میڈیا کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ بریٹ کیواناح نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ ہفتے کے دن امریکی سینیٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ اس امیدوار کے نام کی توثیق کی گئی تھی۔ سینیٹ میں کیواناح کے حق میں پچاس ووٹ پڑے جبکہ اڑتالیس ارکان نے ان کی مخالفت کی۔
ناقدین کے مطابق ترپن سالہ کیواناح سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کئی اہم معاملات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی پارٹی کے لیے فائدے مند ثابت ہو سکیں گے۔
امریکا کی اس اعلیٰ ترین عدالت کے نو رکنی پینل میں شامل جج اسقاط حمل، گن کنٹرول اور انتخابی قوانین کے علاوہ کئی دیگر بہت اہم اور حساس معاملات میں حتمی رائے دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کیواناح کے سپریم کورٹ میں جج بننے سے اب اس اہم ادارے میں ری پبلکن پارٹی کو پانچ چار سے اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیواناح کے سپریم کورٹ کے جج بننے کو ایک انتہائی اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔ ہفتے کی رات کنساس میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا، ’’یہ ایک تاریخی رات ہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ملکی آئین سے محبت کرنے والے عوام کے لیے یہ ایک شاندار جیت ہے۔ امریکی سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے دن بریٹ کیواناح سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔ اس موقع پر ان کی حلف برداری کی عوامی تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ سینیٹ سے توثیق کے بعد کیواناح ہفتے کی رات ہی اپنے عہدے کا غیر رسمی حلف اٹھا لیا تھا۔
جنسی الزامات کا سامنا کرنے والے بریٹ کیواناح کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے۔ اس نامزدگی پر امریکی صدر ٹرمپ کو شدید دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم وہ اپنے اس فیصلے پر ڈٹے رہے۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔