1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریڈ فورڈ میں منعقدہ پہلا ادبی میلا

عاطف توقیر4 اکتوبر 2014

بریڈ فورڈ میں چند روز قبل ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا، جس میں ایک طرف تو مختلف موضوعات پر مذاکرے ہوئے اور دوسری جانب لیریکل محفل میں متعدد ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے شعراء نے اپنی اپنی زبانوں میں اپنا کلام سنایا۔

تصویر: Irna Qureshi

برطانوی شہر بریڈ فورڈ اپنی کثیرالنسلی و ثقافتی حیثیت کی وجہ سے دیگر شہروں کی نسبت نمایاں مقام کا حامل ہے۔ اس شہر کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ یہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اور یہی ثقافتی رنگ اس شہر کے ادبی میلے میں بھی دکھائی دیا۔

محفل میں اردو شاعرہ مہ جبیں غزل انصاری نے ترنم سے غزل پیش کیتصویر: Irna Qureshi

بریڈ فورڈ ادبی میلے کے انعقاد کے لیے شہر کی جامعہ کے علاوہ متعدد اہم آڈیٹوریمز، ہالز اور تاریخی و ثقافتی عمارتوں کو مختلف مذاکروں اور ادبی بحثوں کے لیے استعمال میں لایا گیا۔

ان مباحثوں میں کثیر النسلی معاشروں کے مسائل اور وہاں جنم لینے والے ادب کے معروضات پر بات کی گئی۔ اس کے علاوہ اکیسویں صدی میں ادب کی اہمیت اور مختلف معاشروں پر اس کے اثرات کے علاوہ زبانوں کی بقا اور شعوری بیداری میں ادب کے کردار پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

محفل میں دیگر ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا کلام سنایاتصویر: Irna Qureshi

اس میلے کی کوآرڈینٹر اِرنا قریشی کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس میلے میں لوگوں کی دلچسپی دیدنی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ لیریکل محفل کے لیے ٹکٹوں کی طلب غیرمعمولی حد تک زیادہ رہی، ’جن خوش قسمت افراد کو اس لیریکل محفل میں شمولیت کے لیے ٹکٹ دستیاب ہو گئے، شاعروں نے ان پر اپنے کلام سے ایک سحر طاری کر دیا۔‘

اس ادبی میلے کا اہم ترین پروگرام ’لیریکل محفل‘ شہر کے مرکز میں واقع ایک قدیم اور تاریخی عمارت ’تھیٹر ان مِل‘ میں منعقد کیا گیا۔ مشاعرے کی جنوبی ایشیائی ادبی روایت کو بطور ماڈل سامنے رکھتے ہوئے اس تقریب میں مختلف زبانوں کے شعراء کو مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے حاضرین کا اپنا کلام سنایا اور داد لی۔ حاضرین میں موجود مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی زبان کے شاعروں کو داد بھی مختلف طرح سے دیتے رہے، کہیں واہ واہ، کہیں تالیاں اور کہیں شاعروں کے ہمنوا ہو کر ان کے مصرعوں کو دوبارہ پڑھنے کا منظر بھی جلوہ گر ہوتا رہا۔

انڈر گولڈ فنگر نے اس محفل میں طبلے کے ذریعے حاضرین کی داد و تحسین لیتصویر: Irna Qureshi

اس ادبی محفل میں شرکت کے لیے حاضرین کی جانب سے ٹکٹوں کی خرید اس قدر زیادہ تھی کہ منتظمین نے ہال کی گنجائش ختم ہو جانے پر بیشتر افراد کو شرکت کی اجازت نہ دی اور واپس لوٹا دیا۔

اس لٹریچر فیسٹیول میں دنیا بھر سے 60 نامور مصنفین اور مقررین شریک ہوئے، جو فیسٹیول میں شامل مختلف پروگراموں کا حصہ بنے۔ اس فیسٹیول میں شہر کے مختلف مقامات پر تقریباً 25 مختلف تقاریب منعقد کی گئیں، جن کا مقصد ایک طرف تو ادبی رنگوں سے مزین قوس قُزح کو عام افراد تک پہنچانا تھا اور دوسری جانب تعلیم و مطالعے کی اہمیت کو بھی فروغ دینا تھا۔

منتظمین کے مطابق اس ادبی میلے کی ایک اور خاص بات شہر میں بسنے والے مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے باہمی رواداری اور برداشت میں بھی اضافہ کرنا تھا، اسی لیے میلے میں مسلم، مسیحی، یہودی، ہندو اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شانہ بشانہ دکھائی دیے، جب کہ کچھ تقریبات شہر میں مذہبی اہمیت کی حامل عمارتوں میں بھی منعقد کی گئیں، جن میں بریڈ فورڈ کے علاقے مننگہام میں واقع تاریخی یہودی عبادت خانے میں ایک نشست کا انعقاد بھی شامل تھا۔

اس تقریب کا مقصد مشرق وسطیٰ کی صورت حال کی وجہ سے شہر میں موجود مسلم اور یہودی باشندوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی تھی، اس تقریب میں غزہ تنازعے کے موضوع پر بات چیت کی گئی اور مسلم، یہودی اور مسیحی دانشوروں نے صورت حال کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا۔ اس کے علاوہ اس میلے کے مختلف پروگرامز میں اسکاٹ لینڈ کے حالیہ ریفرنڈم میں اسکاٹش عوام کے برطانیہ ہی میں رہنے کے فیصلے کا رنگ بھی واضح دکھائی دیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں