بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس مستعفی
9 جولائی 2018
بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ کابینہ کے اس فیصلے کے دو روز بعد دیا کہ لندن یورپی یونین سے اخراج کے بعد بھی یونین کے ساتھ اپنے قریبی اقتصادی روابط قائم رکھے گا۔
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے پیر نو جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق مقامی میڈیا نے لکھا ہے کہ ڈیوڈ ڈیوس، جو بریگزٹ کے حوالے سے سخت گیر سوچ کے حامل سیاستدان ہیں، ملکی وزیر اعظم ٹریزا مے کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ماضی قریب میں کئی بار اپنی ذمے داریوں سے مستعفی ہو جانے کی دھمکی دے چکے تھے۔ تاہم اس مرتبہ وہ واقعی اپنی ذمے داریوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق ڈیوڈ ڈیوس نے، جو بریگزٹ سے متعلقہ معاملات طے کرنے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات میں برطانیہ کے اعلیٰ ترین مندوب بھی تھے، وزیر اعظم ٹریزا مے کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ وہ ملکی وزیر اعظم کے ’ڈیفنس کیڈٹ‘ کے طور پر کام نہیں کر سکتے۔
اس سے چند ہی روز قبل ٹریزا مے نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی پوری کابینہ کو اس بارے میں اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں، کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا پروگرام کیا ہو گا۔ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ڈیوس کے مستعفی ہو جانے کے فیصلے سے اب ٹریزا مے کا بطور وزیر اعظم مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے، اور وہ بھی لندن میں ملکی کابینہ کے اس فیصلے کے محض 48 گھنٹے کے اندر اندر کہ یونین کے ساتھ مستقبل کے اقتصادی روابط سے متعلق ایک تجویز منظور کر لی جائے گی۔
مے حکومت کی اس بارے میں تجویز یہ تھی کہ لندن برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کو یہ پیشکش کرے گا کہ بریگزٹ کے بعد بھی یورپی یونین اور برطانیہ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا رہ سکتے ہیں۔ برطانوی کابینہ میں یہ تجویز بہت متنازعہ تھی اور ڈیوڈ ڈیوس کے استعفے میں بھی اسی متنازعہ تجویز نے فیصلہ کن کردارا دا کیا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ڈیوس نے مے کے نام اپنے خط میں لندن کی اب تک کی بریگزٹ پالیسی کو ’مسائل سے بھرپور‘ قرار دیا، جس پر عمل درآمد کی صورت میں نہ صرف لندن کی برسلز کے ساتھ مذاکرات میں پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی بلکہ ساتھ ہی اس سے برطانیہ کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔
ساتھ ہی ڈیوڈ ڈیوس نے یہ بھی لکھا کہ لندن حکومت نے بریگزٹ سے متعلقہ حمتی فیصلوں کے لیے ’ملکی پارلیمان کو اختیار دینے کی جو بات کی ہے، وہ حقیقت سے زیادہ ایک دھوکا‘ ہے، جس کے بعد ’برطانوی معیشت کے کئی حصے لندن حکومت کے دعووں کے برعکس یورپی یونین ہی کے اختیار میں‘ رہیں گے۔
وزیر اعظم ٹریزا مے کے لیے سیاسی طور پر کافی حد تک بے چینی کا سبب ڈیوڈ ڈیوس کا اپنے خط میں یہ لکھنا بھی ہے، ’’برطانیہ کے قومی مفادات اس بات کے متقاضی ہیں کہ میرے عہدے پر ایک وزیر کی حیثیت سے کسی ایسی شخصیت کو فائز کیا جائے، جو آپ (وزیر اعظم مے) کی سوچ کا پرجوش حامی ہو، نہ کہ میری طرح محض ناچاہتے ہوئے ہی آپ کی سوچ پر عمل پیرا ہو۔‘‘
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق اسی اختلاف رائے کے باعث صرف ڈیوڈ ڈیوس ہی مستعفی نہیں ہوئے بلکہ لندن میں بریگزٹ امور کی وزارت کے ایک جونیئر وزیر اسٹیو بیکر بھی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔