ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بریگزٹ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے حوالے سے برطانوی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا شروع ہو گیا ہے۔ چند پیچیدگیوں کی وجہ سے وزیراعظم ٹریزا مَے کی کابینہ میں اختلافات نمودار ہوئے ہیں۔
اشتہار
یہ اختلافات برطانوی حکومت کے دو وزراء لائم فوکس اور فلپ ہیمنڈ کی جانب سے جاری ہونے والے متضاد بیانات سے ظاہر ہوئے ہیں۔ لائم فوکس بین الاقوامی تجارت کے وزیر ہیں جب کہ فلپ ہیمنڈ برطانوی وزیر خزانہ ہیں۔ ان کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد روزگار کی منڈی میں کام کرنے والوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا مسئلہ ہے۔
لائم فوکس کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ٹریزا مے کی کابینہ مارچ سن 2019 میں یونین سے برطانیہ کے اخراج کے بعد امیگریشن قوانین پر پوری طرح متفق نہیں ہے۔
فلپ ہیمنڈ کا اس تناظر میں موقف بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کابینہ میں اس معاملے پر ایک وسیع اتفاقِ رائے موجود ہے۔ ہیمنڈ کے مطابق روزگار کے حصول کے لیے برطانوی اور یونین کے رکن ملکوں کے شہریوں پر تین برس تک نقل و حرکت کے موجودہ قوانین کا اطلاق رہے گا اور وہ آزادانہ طور آ جا سکیں گے۔
فلپ ہیمنڈ کے بیان پر مزید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی تجارتی امور کے وزیر لائم فوکس نے جریدے سنڈے ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا کچھ زیر بحث لایا گیا ہے تو وہ یقینی طور پر کابینہ کی اُس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔
برطانوی وزیر خزانہ ہیمنڈ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق جونیئر وزیر ڈیوڈ جونز کا کہنا ہے، اگر انخلا کے بعد بھی تین برس تک برطانوی روزگار کی منڈی میں یونین کے رکن ملکوں کے افراد ملازمتیں جاری رکھیں گے تو یہ ایک انتہائی خطزناک معاشی صورت حال کی عکاس ہے۔ جونز کے مطابق ہیمنڈ کا یہ بیان وزیراعظم مَے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کے اقتصادی مشیر گیرارڈ لیونز کا خیال ہے کہ تین کے بجائے دو برس کا عبوری عرصہ مناسب رہے گا۔ سنڈے ٹیلیگراف کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لیونز نے کہا کہ بریگزٹ کے حوالے سے پیدا موجودہ خدشات پہلے سے اخذ شدہ معلوم ہوتے ہیں اور ان کا حتمی ہونا واضح نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ برطانوی وزیراعظم آج کل اپنی تعطیلات گزارنے ملک سے باہر گئی ہوئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اُن کی عدم موجودگی میں جنم لینے والے اس اختلاف کے لندن حکومت اور یونین کے جاری مذاکراتی عمل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس مناسبت سے برطانوی سیاسی حلقوں کے مطابق ٹریزا مَے پہلے ہی رواں برس جون میں ہونے والے انتخابی نتائج سے کمزور حکومت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ اختلافی معاملہ نیا دردِ سر بن سکتا ہے۔