1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بریگزٹ برطانوی سلطنت کا حقیقی اختتام ہے‘

14 نومبر 2019

یورپی کونسل کے صدر نے پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ کا بین الاقوامی معاملات میں نہ صرف اثرو رسوخ کم ہو جائے گا بلکہ اس کی حیثیت بھی ایک ’دوسرے درجے کے کھلاڑی‘ جیسی ہو جائے گی۔

Großbritanien | Die Kronjuwelen
تصویر: picture alliance/Photoshot

یورپی یونین دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک بھی ہے لیکن برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے حامیوں کے خیال میں یہ ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور اس کی یہ حیثیت برقرار رہے گی بلکہ برطانیہ یورپی یونین کے اثر سے نکل کر امریکا جیسی طاقت کے مزید قریب آ جائے گا۔

دوسری جانب یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک کا کہنا ہے کہ ایک متحدہ یورپ ہی ابھرتے ہوئے چین کا مقابلہ اور عالمی سطح پر موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ بیلجیم کے کالج آف یورپ میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''بریگزٹ کے حامی بار بار کہتے ہیں کہ وہ برطانیہ کو دوبارہ عالمی طاقت بنانے کے لیے یورپی یونین کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تنہا رہنا حقیقت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ صرف یورپ کا حصہ ہوتے ہوئے ہی برطانیہ ایک عالمی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہم متحد ہو کر ہی پیچیدگیوں کے بغیر اس دنیا کی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا یہ جانتی بھی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں نے بھارت، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جنوبی افریقہ میں بھی یہی سنا ہے کہ برطانیہ ایک اجنبی بن جائے گا، دوسرے درجے کا کھلاڑی بن جائے گا۔‘‘

ڈونلڈ ٹُسک نے ایک مرتبہ پھر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ والوں کو اپنا ذہن بدلنا چاہیے اور یورپی یونین سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔

برطانیہ میں اگلے ماہ انتخابات ہونے ہیں اور اگر ان میں وزیراعظم بورس جانسن واضح اکثریت سے جیت جاتے ہیں تو برطانیہ اکتیس جنوری دو ہزار بیس میں یورپی یونین چھوڑ سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹُسک کا کہنا تھا کہ میں دنیا میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کیوں چھوڑنا چاہتا ہے اور اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، ''میرے ایک برطانوی دوست نے مجھے انتہائی اداس ہو کر کہا تھا اور شاید وہ بالکل ٹھیک تھا کہ بریگزٹ برطانوی سلطنت کا حقیقی اختتام ہے۔‘‘

ا ا / ب ج ( روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں