بریگزٹ: برطانوی وزیر اعظم کو پارلیمانی ووٹنگ میں بڑی شکست
9 جنوری 2019
برطانوی وزیر اعظم مے کو بریگزٹ کے طریقہ کار سے متعلق برٹش پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک اہم رائے شماری میں بڑی ناکامی ہوئی ہے۔ پارلیمانی فیصلہ سازی سے متعلق اس قرارداد کا تعلق لندن کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج سے تھا۔
اشتہار
لندن سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کو، جنہیں بریگزٹ سے متعلق پہلے ہی بہت سے سیاسی مشکلات اور تنقید کا سامنا ہے، لندن کی پارلیمان میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے طریقہ کار سے متعلق ایک بہت اہم رائے شماری میں بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
نو جنوری بدھ کے روز ہونے والی یہ رائے شماری اس بارے میں تھی کہ اگر بریگزٹ ڈیل پر اگلے ہفتے ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ میں برطانوی دارالعوام کے ارکان کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا، تو مے حکومت کو نئے متبادل امکانات کی تلاش کے لیے ملنے والی مہلت کا دورانیہ کتنا اور طریقہ کیا ہونا چاہیے۔
اس بارے میں ویسٹ منسٹر میں ارکان پارلیمان نے آج بدھ کو 297 کے مقابلے میں 308 ووٹوں کی اکثریت سے یہ قرارداد مسترد کر دی۔ اس قرارداد میں بریگزٹ ڈیل پر آئندہ پارلیمانی ووٹنگ ممکنہ طور پر ناکام رہنے کے بعد پارلیمانی فیصلہ سازی کا طریقہ کار بدلنے کی بات بھی کی گئی تھی۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ ملکی عوام نے ایک ریفرنڈم میں کیا تھا اور اس بارے میں لندن حکومت کی برسلز میں یورپی یونین کے ساتھ ایک ڈیل بھی طے پا چکی ہے۔
مے حکومت نے اس طے شدہ بریگزٹ ڈیل کی برطانوی پارلیمان کی طرف سے منظوری کے لیے رائے شماری کی خاطر پندرہ جنوری کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔
لیکن یہ بات قطعی غیر یقینی ہے کہ آیا اس رائے شماری میں برطانوی ارکان پارلیمان اس ڈیل کی منظوری دے دیں گے۔ اس سے قبل اسی ڈیل پر یہ رائے شماری دسمبر میں کرانے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم مے نے یہ رائے شماری اس لیے ملتوی کر دی تھی کہ تب انہیں کافی حد تک یقین تھا کہ پارلیمانی ارکان لندن اور برسلز کے مابین طے پانے والے اس انتہائی اہم معاہدے کو مسترد کر دیں گے۔
برطانیہ کے بارے میں سیاسی ماہرین کے یہ خدشات بھی اب عام ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ لندن کو برسلز میں یورپی قیادت کے ساتھ کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جانا پڑے، جس کے لیے ’سوفٹ بریگزٹ‘ کے متضاد کے طور پر ’ہارڈ بریگزٹ‘ کی اصلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
م م / ع ا / ڈی پی اے
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔