’برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل کی عدم منظوری کی ذمہ داری صرف وزیر اعظم ٹریزا مے پر عائد ہوتی ہے‘۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار باربرا ویسل کے خیال میں اس ناکامی کے بعد مے کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
اشتہار
برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل کی عدم منظوری کے بعد وزیر اعظم ٹریزا مے کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کو یقینی بنانے تک اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوں گی۔ مے نے کہا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بریگزٹ کو یقینی بنائیں کیونکہ وہ وزیر اعظم بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی تھیں۔
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار باربرا ویسل کے مطابق مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی، کیونکہ قدامت پسند اقتدار پر اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم قدامت پسندوں کا یہ رویہ برطانوی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
مے شکست کی مستحق تھیں
باربرا ویسل کے مطابق مے کی بریگزٹ ڈیل کی ناکامی کی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ بریگزٹ کا معاملہ برطانوی سیاست میں ایک تقسیم کی وجہ بن چکا ہے۔ اس تناظر میں قدامت پسندوں کی صفوں میں بھی اختلافات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
باربرا ویسل کے مطابق برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل کی عدم منظوری دراصل ٹریزا مے کی سیاسی نااہلیت کی غمازی کرتی ہے۔ مے نے اس تمام کہانی میں صرف اپنے قریبی ساتھیوں کو ہی سامنے رکھا اور کسی دوسرے کی ایک نا سنی۔ یوں مے اپوزیشن اور اپنی ہی پارٹی کے اندر کئی اہم دھڑوں کا اعتماد نہ جیت سکیں۔
ویسل مزید لکھتی ہیں کہ مے نے بریگزٹ ڈیل کی تیاری اور اس کی منظوری کے مرحلوں میں برطانیہ میں مقیم یورپی ورکنگ کلاس کے خلاف ایک سخت لہجہ اختیار کیا، جو دراصل بحیثت مجموعی یورپ کے خلاف ہی دیکھا گیا۔ اس طرح وہ یورپی سطح پر بھی تنہا ہو گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مے سربراہ حکومت کے عہدے کے لائق ہی نہیں ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار ویسل کے مطابق مے اس مخصوص صورتحال میں برطانیہ کی ویلفیئر یا مستقبل کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی نہیں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بطور سیاستدان ٹریزا مے انتہائی تنگ نظر، ضدی، چھوٹے دماغ کی مالک اور تخیلاتی طاقت سے عاری معلوم ہوتی ہیں۔
ویسل کے مطابق برطانیہ کو ایک نئے سربراہ کی ضرورت ہے۔ تاہم اپوزیشن رہنما جیرمی کوربین ابھی تک وہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بن سکیں۔ اس تناظر میں ویسل کہتی ہیں کہ بریگزٹ کے معاملے پر کسی اچھی خبر کی کوئی ضمانت نظر نہیں آتی۔ بریگزٹ کے سلسلے میں ہونے والی اب تک کی پیشرفت نے نہ صرف یورپی یونین کے اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ برطانیہ کو بھی منقسم کر دیا ہے۔
باربرا ویسل/ ع ب / ع س
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔