بریگزٹ: برطانیہ میں اشیا خورد ونوش کی قلت کا امکان؟
18 اگست 2019
برطانوی اخبارسنڈے ٹائمزکے مطابق ان خدشات کا اظہارحکومت کی اپنی خفیہ دستاویزات میں کیا گیا ہے، لیکن ایک برطانوی وزیر نے اخبار کی خبر کو بے جا خوف پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
اشتہار
برطانیہ یورپی یونین سے اگر کوئی اقتصادی سمجھوتہ کیے بغیر نکلتا ہے تو اس صورت میں وہاں خوراک، تیل اور ادویات کی قلت پیدا ہونے خدشات ہیں۔ برطانوی اخبارسنڈے ٹائمزکے مطابق ان تحفظات کا اظہار حکومت کی اپنی خفیہ دستاویزات میں کیا جا چکا ہے۔
اخبارکے مطابق بغیر ڈیل کے بریگزٹ کی صورت میں برطانوی بندرگاہوں کی صورت حال ابتر ہو جائے گی اور آئرلینڈ کی سرحدوں پر گمبھیر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پچاسی فیصد برطانوی ٹرک انگلش چینل عبور کرنے کے بعد فرانسیسی کسٹم قوانین کا بھی سامنا کریں گے، جس کے لیے تیاری مکمل نہیں۔ سنڈے ٹائمز کے مطابق بریگزٹ کے ممکنہ اثرات پر یہ رپورٹ برطانوی کابینہ کے دفتر نے مرتب کی۔
برطانوی وزیر توانائی کواسی کوارٹینگ نے اخبار سنڈے ٹائمز کی رپورٹ رد کرتے ہوئے اسے بلاوجہ لوگوں میں خوف پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اسکائی نیوز ٹیلی وژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیر نے ایسے تمام خدشات کو 'خوف کا پراجیکٹ‘ قرار دیا۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانس بارہا کہہ چکے ہیں کہ یورپی یونین کے ساتھ چاہے کوئی سمجھوتہ طے پائے یا نہیں، برطانیہ اکتیس اکتوبر کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ بعض مبصرین کے مطابق، اگر برطانیہ واقعی بغیر ڈیل کے یورپی یونین چھوڑتا ہے تو اس سے برطانیہ میں دستوری بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
ایک سو سے زائد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے وزیراعظم جانسن کے نام لکھے گئے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ ایک قومی ایمرجنسی سے گذر رہا ہے اس لیے پارلیمنٹ کا فوری اجلاس بلایا جائے۔
اسی دوران بریگزٹ منسٹر اسٹیفن برکلے نے کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اب اس میں واپسی کی کوئی گنجائیش نہیں۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے ایک قانونی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت سن 1972 کے 'یورپی کمیونیٹیز ایکٹ‘ کی تنسیخ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ برطانیہ اسی قانون کے تحت یورپی یونین کا رکن بنا تھا۔
غ ح، ش ج ⁄ روئٹرز، اے ایف پی
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔