بریگزٹ: برطانیہ نے مذاکرات میں جرمنی سے مدد کی اپیل
12 اکتوبر 2020
برطانوی وزیر اعظم نے جرمن چانسلرمیرکل سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ اگر بریگزٹ معاہدہ طے نہ ہو پایا تو ان کا ملک یونہی یورپی یونین سے الگ ہونے کو تیار ہے۔ انہوں نے مذاکرات کے سلسلے میں جرمنی سے مدد کی اپیل بھی کی ہے۔
اشتہار
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ مذاکرات سے متعلق جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے اتوار کے روز فون پر بات چیت کی اور ان 'اہم اختلافات' پر تبادلہ خیال کیا جو برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے میں اب بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس بات چیت کے بعد برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پرجلد کوئی پیش رفت بہت ضروری ہے۔
بیان کے مطابق وزیر اعظم بورس جانسن نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اس سلسلے میں پائے جانی والے’’اہم مسائل اور اختلافات کو دور کرنے کی خاطر آنے والے دنوں میں پیش رفت بہت ضروری ہے، خاص طور پر ماہی گیری کے شعبے میں اور معاشی سطح پر سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے معاملے میں۔'' برطانوی وزیر اعظم نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے درخواست کی ہے کہ معاہدے کے لیے بات چیت میں جو بھی رکاوٹیں ہیں اس کے حل کے لیے جرمنی کوشش کرے۔
یورپی یونین اور برطانیہ نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ رواں ماہ کے اواخر تک فریقین کے درمیان بریگزٹ کے بعد کا ایک اقتصادی معاہدہ طے پا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو وہ اس کے بغیر بھی مستقبل کا اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ جرمنی کا موقف ہے کہ بریگزٹ بغیر کسی معاہدے کے نہیں ہونا چاہیے اور وہ اس کا مخالف ہے۔
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
الگ ہونے کے لیے تیار ہیں
بات چیت کے بعد لندن میں برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ جس طرح آسٹرلیا اور یورپی یونین کے درمیان کوئی اقتصادی معاہدہ نہیں ہے پھر بھی وہ تجارت کرتے ہیں اسی راہ پر وہ بھی چلنے کے لیے تیار ہے،’’آنے والے دنوں میں ایک معاہدے کا ہونا دونوں کے مفاد میں ہے، تاہم برطانیہ آسٹریلیا کی طرز کے شرائط پر بھی منتقلی کی مدت ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘ آسٹریلیا، یورپی یونین کے ساتھ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں اور محصولات کے تحت تجارت کرتا ہے۔
اشتہار
اس سلسلے میں چند روز بعد ہی یورپی یونین کی ایک اہم میٹنگ ہونے والی ہے جس میں خاطر خواہ فیصلوں کی توقع ہے۔ لیکن اس میٹنگ سے چند روز قبل ہی برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں جلد ہی کوئی معاہدہ طے نہیں ہو پاتا تو پھر وہ بغیر کسی معاہدے کے ہی اپنی راہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہے۔
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط کیسے ہوں گے اس حوالے سے فریقین میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس میں ماہی گیری ایک اہم مسئلہ رہا ہے تاہم اس کے علاوہ بڑا سوال یورپی یونین کی واحد مارکیٹ تک برطانیہ کی رسائی کا ہے۔ اس سے قبل بورس جانسن نے فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے تمام راستے تلاش کرنے میں لگے ہیں۔
گوکہ برطانیہ اس برس اکتیس جنوری سے یورپی یونین سے علیحدہ ہو چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد اگلے سال سے شروع ہونا ہے۔ فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سال کے آخر تک باہمی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس عبوری دور کے دوران مستقبل کے معاملات کا تعین کیا جائے گا۔
برطانیہ اور یورپی یونین کے لگ بھگ پچاس سالہ تجارتی تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہت سارے کاروباری معاہدوں اور قانونی تقاضوں کو از سر نو طے کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے کیوں کہ بعض معاملات پر سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔
اگر فریقین واقعی بغیر کسی معاہدے سے ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں تو اس سے ان کے درمیان تقریباً ایک ٹرلین ڈالر کی تجارت کا ایک بڑا حصہ بے یقینی کا شکار ہو سکتا ہے۔
’بریگزٹ‘ کی صورت میں برطانیہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟