حالیہ یورپی سربراہی کانفرنس میں یورپی یونین کی جانب سے بریگزٹ کے معاملے پر واضح موقف کے بعد برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے کے پاس اب فقط چار آپشنز موجود ہیں۔
اشتہار
حالیہ سمٹ میں 27 رکنی یورپی بلاک کی جانب سے برطانوی وزیراعظم پر واضح کر دیا گیا کہ بریگزٹ کے موضوع پر گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے کے مسودے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یہ معاہدہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان قریب دو برس تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔
یورپی یونین کا موقف ہے کہ برطانیہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وہ اس معاہدے میں کسی بھی طرح کی ترمیم کی بجائے ایک نئے معاہدے کو فوقیت دے گی، تاہم ایسا کوئی بھی علیحدہ معاہدہ 29 مارچ کو برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد ہی ممکن ہو گا۔
کئی دہائیوں تک یورپی یونین کا حصہ رہنے والے برطانیہ کے پاس اب کم ہی آپشنز باقی بچے ہیں۔
برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی توثیق یورپی یونین کی جانب سے تو کی جا چکی ہے، تاہم برطانوی پارلیمان اسے قبول کرتی نظر نہیں آتی۔ اس ڈیل پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمران کنزرویٹیو پارٹی کے بہت سے قانون ساز بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ڈیل کی پارلیمان سے منظوری کے لیے برطانوی پارلیمان میں ووٹنگ گزشتہ منگل کو ہونا تھی، تاہم یقینی شکست کے تناظر میں مے حکومت نے یہ رائے شماری ملتوی کر دی۔
اس ڈیل کے مخالف ٹوری پارٹی کے قانون سازوں نے اسی تناظر میں مے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، تاہم اس جماعت کے زیادہ تر ارکان نے مے کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ تحریک ناکام بنا دی۔ بہت سے قانون سازوں کا موقف ہے کہ ٹیریزا مے جمعرات اور جمعے کے روز برسلز کے دورے کے دوران یورپی یونین سے مزید مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
مے حکومت اب یہی ڈیل سات تا 21 جنوری کے دوران دوبارہ منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش کر سکتی ہے۔ مے حکومت کو خیال ہے کہ یورپی یونین سے اخراج سے قبل کوئی ڈیل نہ ہونا، قانون سازوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اس ڈیل کو قبول کر لیں۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے کسی بھی ڈیل کے بغیر ہی، اس بلاک سے الگ ہو جائے اور مستقبل میں فریقین باہمی تعلقات کے حوالے سے کسی معاہدے تک پہنچیں۔
اس کے علاوہ دیگر آپشنز میں یہ بھی ممکن ہے کہ برطانیہ میں دوبارہ سے ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا جائے، جس میں عوام یورپی یونین کا رکن رہنے کے حق میں رائے دیں اور اس طرح برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج نہ ہو۔
تاہم ایک صورت حال یہ بھی ممکن ہے کہ برطانوی حکومت بریگزٹ کے لیے لزبن معاہدے کے دو برس قبل فعال کیے گئے ارٹیکل پچاس کو غیرفعال کر دے اور یوں بریگزٹ کا عمل رک جائے۔