بریگزٹ جانسن کے ’گلے کی ہڈی‘ بن گیا: اکتوبر میں بھی بہت مشکل
7 ستمبر 2019
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ دو وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹریزا مے کی ان کی عہدوں سے رخصتی کی وجہ بن گیا تھا۔ اب اسی بریگزٹ پر عمل درآمد ان کے پس رو وزیر اعظم بورس جانسن کے ’گلے کی ہڈی‘ بھی بن گیا ہے۔
اشتہار
بورس جانسن نے برطانوی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے فوری بعد یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ہر حال میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ برطانیہ اس سال اکتیس اکتوبر کی ڈیڈ لائن تک یورپی یونین سے نکل جائے۔ اگر اس عرصے میں کوئی نیا بریگزٹ معاہدہ ہو گیا تو اچھا ہو گا اور نہ بھی ہوا تو لندن بغیر کسی باقاعدہ معاہدے کے ہی اس بلاک سے نکل جائے گا۔ اس عمل کے لیے ماہرین 'نو ڈیل بریگزٹ‘ یا 'ہارڈ بریگزٹ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
بورس جانسن کو ان کے ان ارادوں سے روکنے کے لیے برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا ہاؤس آف کامنز نے حال ہی میں ایک ایسی قرارداد بھی منظور کر لی تھی کہ جانسن 'نو ڈیل‘ بریگزٹ پر اکتیس اکتوبر کو عمل درآمد نہیں کر سکتے تھے۔
اس لیے کہ تب لندن میں اراکین پارلیمان نے بریگزٹ سے متعلقہ امور ایک طرح سے اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔
جانسن کے لیے مسلسل تیسرا بڑا دھچکا
پھر بورس جانسن نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ اگر پارلیمان نہ مانی تو وہ ملک میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں گے۔ اس امکان کو بھی دارالعوام کے ارکان نے ایک اور قرارداد منظور کر کے روک دیا۔ اس کے بعد ایوان بالا یا ہاؤس آف لارڈز نے بھی جمعہ چھ ستمبر کی رات ایک قرارداد منظور کر لی، جس میں ہاؤس آف کامنز کے فیصلے کی حمایت کر دی گئی۔
یہ فیصلہ برطانیہ میں پارلیمانی سطح پر بورس جانسن کے بریگزٹ سے متعلقہ ارادوں کے لیے مسلسل تیسرا بڑا دھچکا تھا۔
لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب موجودہ برطانوی وزیر اعظم کے لیے اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ برطانیہ کے کسی ڈیل کے بغیر ہی اکتوبر کے آخر تک یورپی یونین سے نکل جانے کے پہلے سے کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ خطرہ بہت کم رہ گیا ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک 'ہارڈ بریگزٹ‘ کی صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اس لیے کہ فی الحال جانسن کے پاس ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اس فیصلے کا کوئی توڑ موجود ہی نہیں کہ دارالعوام اور دارالامراء نے 'نو ڈیل بریگزٹ‘ کا راستہ عملاﹰ بند کر دیا ہے۔
صرف ملکہ الزبتھ ثانی کے دستخط باقی
اس قانون کی منظوری کے بعد اب یہ مسودہ دستخطوں کے لیے ملکہ الزبتھ ثانی کے سامنے رکھا جائے گا۔ ہاؤس آف لارڈز کے ایک بیان کے مطابق ملکہ کی طرف سے دستخطوں کے بعد یہ مسودہ نہ صرف باقاعدہ قانون بن جائے گا بلکہ یہ پیر نو ستمبر سے باقاعدہ طور پر نافذالعمل بھی ہو جائے گا۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
اس مسودہ قانون کے تحت وزیر اعظم بورس جانسن کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ اگر وہ 19 اکتوبر تک یونین کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ طے کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو انہیں برسلز میں یورپی یونین کے حکام کو یہ باقاعدہ درخواست کرنا ہو گی کہ بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے اب تک کی 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن میں کم ازکم بھی مزید تین ماہ کی تاخیر کر دی جائے۔
'یہ سب کچھ صرف میری لاش کے اوپر سے ہی‘
دوسری طرف بورس جانسن خود یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسا تو اپنی زندگی میں بالکل نہیں کریں گے۔ انہوں نے اسی ہفتے کہہ دیا تھا، ''میں یورپی یونین کو اس ڈیڈ لائن میں مزید کسی توسیع کی درخواست دینے سے زیادہ یہ پسند کروں گا کہ مجھے مر کر قبر میں لیٹنا پڑے۔‘‘
یوں برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج کے فیصلے پر عمل درآمد اب اس حوالے سے انتہائی مشکوک ہو گیا ہے کہ لندن حکومت اس فیصلے پر آخر کب تک عمل کر سکے گی۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
بڑے شہروں میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان
آسٹریلیا سمیت کئی دوسرے ممالک میں جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ شمالی امریکا اور ایشیائی شہروں میں بھی ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی محسوس کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Isakovic
آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی
مختلف آسٹریلوی شہروں میں گزشتہ پندرہ برسوں کے بعد رواں موسم خزاں میں مکانات کی خرید و فروخت میں حیران کن کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر سڈنی نمایاں ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں کے عروج کے دور میں سڈنی میں مکانات کی قیمتیں دوگنا ہو گئی تھیں لیکن اب ان میں دس فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کی ایک وجہ رہن رکھنے کے سخت ضوابط بھی ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/A. Drapkin
بنکاک کی مشترکہ ملکیت پر چھائی برف
بنکاک میں مشترکہ ملکیت کی حامل ریئل اسٹیٹ میں چینی سرمایہ کار خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے قیمتوں میں پانچ سے دس فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔ اب اس صورت حال میں کمی کے بعد چالیس ہزار اپارٹمنٹس کا کوئی خریدار نہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ بعض ایشیائی شہروں میں رہائشی عمارتوں کے لیے جگہ کم ہونے لگی ہے۔
تصویر: imago/Arcaid Images/R. Powers
لندن میں جائیداد کی خرید و فرخت پر بریگزٹ کے سائے
برطانوی دارالحکومت لندن کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں چینی، روسی اور مشرق وسطیٰ کے امراء بڑی رغبت سے سرمایہ کاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اب بریگزٹ کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ تقریباً پانچ سو نئے تعمیر شدہ اپارٹمنٹس اور مکانات خالی پڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arcaid/R. Bryant
چین میں قیمتوں کی کمی، سرمایہ کاروں کی دہائی
چین کے کئی شہروں میں جائیداد کے کاروبار میں مندی جاری ہے۔ قیمتوں میں کمی کا یہ مخصوص رجحان گزشتہ برس سے جاری ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی سمیت تیئس شہروں میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں گراوٹ پیدا ہو چکی ہے۔ کئی چینی صوبوں نے رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے کئی منصوبے منسوخ کر دیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/imaginechina/D. Dong
وینکُوور کے غبارے سے بھی ہوا نکل رہی ہے
گزشتہ پندرہ برسوں میں کینیڈا کے شہر وینکُوور میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو فروغ حاصل رہا۔ مکانات کی قیمتوں میں 337 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رائل بینک آف کینیڈا کے مطابق اب یہ شہر اپنی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدید صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: imago/All Canada Photos
استنبول کی صورت حال بھی گھمبیر
گزشتہ برس ترک کرنسی لیرا کی مجموعی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں چالیس فیصد کی کمی ہوئی۔ شرح سود میں چوبیس فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس باعث گروی رکھنے والی جائیداد کی درخواستوں میں سے اسی فیصد کو مسترد کر دیا گیا۔ دوسری جانب غیر ملکی کرنسیوں کے لیے استنبول میں مکانات کی قیمتیں بظاہر کم محسوس ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters
سنگاپور میں بھی جائیداد کے کاروبار میں کمی کا رجحان
ریئل اسٹیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں سن 2019 کے دوران مکانات و اپارٹمنٹس کی قیمتوں میں پانچ فیصد سے زائد کمی کی توقع ہے۔ سنگاپور میں رہائشی اپارٹمنٹس کے حوالے سے نئے تجرباتی ڈیزائن بھی متعارف کرائے گئے ہیں تا کہ خریداروں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
تصویر: Imago/imagebroker
ہانگ کانگ میں حالات بہتر ہوئے ہیں
ہانگ کانگ میں پراپرٹی کی مارکیٹ میں چند برس قبل تیزی ضرور پیدا ہوئی تھی لیکن اب اس کی رفتار مدہم پڑ چکی ہے۔ خصوصی اختیارات کے حامل چینی علاقے کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں گزشتہ نو برسوں سے اعتدال پایا جاتا ہے۔ گرشتہ موسم گرما سے اب تک پراپرٹی کی قیمتوں میں نو فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔