بریگزٹ: جبرالٹر کو کالونی کیوں لکھا، برطانیہ یورپ سے ناراض
1 فروری 2019
برطانوی حکومت کے لیے ملکی پارلیمان میں بریگزٹ معاہدے کی توثیق تو ابھی تک ایک مسئلہ ہے ہی لیکن اب لندن اور برسلز کے مابین اس وجہ سے ایک نئی بدمزگی پیدا ہو گئی ہے کہ یورپی یونین نے جبرالٹر کو برطانوی نوآبادی کیوں کہا۔
اشتہار
برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے جمعہ یکم فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کے لیے اب تک کی حتمی تاریخ 29 مارچ ہے۔
اس سلسلے میں یونین اور برطانیہ کے مابین جو بریگزٹ ڈیل طے پائی تھی، اسے کئی یورپی ممالک کے قومی پارلیمانی ادارے تو منظور کر بھی چکے ہیں جبکہ لندن میں وزیر اعظم ٹریزا مے اسے اس کی موجودہ حالت میں ابھی تک دارالعوام سے منظور نہیں کروا سکیں۔
اسپین اور برطانیہ کے مابین جبرالٹر کا تنازعہ
04:46
’ہارڈ بریگزٹ‘ کا بھی امکان
اس دوران اب یہ خدشات بھی کافی زیادہ ہو چکے ہیں کہ برطانیہ شاید کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے، جسے ماہرین ایک ممکنہ ’ہارڈ بریگزٹ‘ کا نام دے رہے ہیں۔
لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں۔ لندن اور برسلز کے مابین اسی بریگزٹ کے باعث کئی ایسے دیگر معاملات بھی سر اٹھا چکے ہیں، جو باقاعدہ رنجش یا دوطرفہ کشیدگی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
انہی میں سے آج جمعے کو سامنے آنے والی ایک رنجش کا تعلق جبرالٹر سے ہے۔ برطانیہ کے بارے میں مستقبل کے یورپی یونین کے ایک نئے لیکن ابھی تک مجوزہ ضابطے میں یہ کہا گیا ہے کہ برطانوی شہریوں کو آئندہ کسی بھی قسم کے ویزے کے بغیر یورپی یونین کے سفر کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں برطانوی حکام کی طرف سے یہ شکایت بھی کر دی گئی ہے کہ اس دستاویز میں یونین نے جبرالٹر کے لیے برطانیہ کی نوآبادی یا ’کالونی‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا؟
جبرالٹر اسپین کے جنوبی ساحلی علاقے میں ایک چھوٹے سے رقبے پر محیط اور اردو میں جبل الطارق کہلانے والا ایسا علاقہ ہے، جو بریگزٹ کے بعد بھی جغرافیائی طور پر تو یورپی یونین ہی میں رہے گا۔ اسی موضوع پر برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ ماضی میں بھی کئی بار اختلافات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
’دا روک‘
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
مارچ کے اواخر میں بریگزٹ کے بعد اسپین چونکہ یونین کا حصہ تو رہے گا، جو جبرالٹر سے متعلق تنازعے میں ایک فریق بھی ہے، اس لیے لندن کو لگتا ہے کہ یورپی ممالک، جو پہلے اس تنازعے میں سیاسی طور پر غیر جانبدار رہتے تھے، اب اپنی پالیسیوں میں اور پوری یونین بھی ایک بلاک کے طور پر اسپین کے موقف کے حامی ہو جائیں گے۔ یورپ میں جبرالٹر کو اس کی پتھریلی ساحلی نوعیت کے باعث مختصراﹰ صرف ’چٹان‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یورپی یونین کا اب تک کا ارادہ یہ ہے کہ بریگزٹ کے بعد اگر کوئی دوسرا سفری معاہدہ طے نہ پایا، تو برطانوی شہریوں کو یہ اجازت دے دی جائے گی کہ وہ کسی ویزے کے بغیر 90 روز تک یونین کے رکن کسی ایک یا زیادہ ممالک میں قیام کر سکیں گے۔
ساتھ ہی اس مجوزہ یورپی ضابطے میں تحریری طور پر پہلی بار ایک تفریق بھی کر دی گئی ہے، یعنی برطانیہ میں رہنے والے برطانوی شہریوں اور جبرالٹر کے شہریوں کے مابین، کیونکہ جبرالٹر کے شہری تو آئندہ بھی یورپی یونین کے شہری رہیں گے۔ لندن کے لیے جبرالٹر ایک ایسا ’سمندر پار برطانوی خطہ‘ ہے، جو یورپی یونین میں واقع ہے۔
برسلز میں سفارت کاروں کے مطابق یورپی یونین کے لیے برطانیہ کے سفیر نے یورپی سفارت کاروں کے ساتھ جمعے کو ہونے والی اپنی ایک ملاقات میں اس بارے میں باقاعدہ اعتراض بھی کیا۔ ایک برطانوی خاتون ترجمان نے کہا، ’’جبرالٹر کوئی نوآبادی نہیں ہے اور اسے کالونی کہنا اس کی حیثیت کو بیان کرنے کا قطعی نامناسب طریقہ ہے۔‘‘