بریگزٹ سے متعلق دوبارہ ریفرنڈم ناممکن، برطانوی وزیر اعظم
مقبول ملک ڈی پی اے
3 مارچ 2018
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے بقول برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج سے متعلق کوئی نیا ریفرنڈم ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بریگزٹ کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عمل نہ کرنا سیاستدانوں پر عوامی اعتماد کے لیے تباہ کن ہو گا۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ تین مارچ کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ برطانیہ کے عوام ایک بار اپنے ملک کے یورپی یونین سے انخلا کا فیصلہ کر چکے ہیں، جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور اب اس فیصلے پر عمل درآمد میں سیاست دانوں کی کوئی بھی ناکامی عوام کے سیاسی قیادت پر اعتماد کے لیے بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو گی۔
جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ اور چند دیگر یورپی اخبارات کے اتحاد ’لینا‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹریزا مے نے کہا کہ برطانیہ اب تک کے پروگرام کے مطابق انیس مارچ 2019ء سے یقینی طور پر یوری یونین کا رکن نہیں رہے گا۔ برطانوی سربراہ حکومت کا یہ انٹرویو آج ہفتے کے روز ’دی وَیلٹ‘ اور کئی دیگر یورپی اخبارات میں شائع ہوا۔
ٹریزا مے نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ برطانیہ کے عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت کی سوچ وہی ہے، جس کا اظہار وہ خود کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ڈی پی اے نے کئی تازہ عوامی جائزوں کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ میں بریگزٹ کے حق میں عوامی تائید مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس پس منظر میں یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونالڈ ٹُسک اور یورپی کمشین کے صدر ژاں کلود یُنکر بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر برطانیہ نے ابھی بھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ بھی یونین کا رکن ہی رہنا چاہتا ہے، تو برسلز کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
برطانوی عوام نے جون 2016ء میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 52 فیصد کی اکثریت سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ لندن کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے۔ اس ریفرنڈم میں 48 فیصد برطانوی رائے دہندگان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے ملک کو ماضی کی طرح مستقبل میں بھی یورپی یونین کا رکن رہنا چاہیے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
قبل ازیں جمعہ دو مارچ کے روز لندن میں اپنے ایک انتہائی اہم پالیسی خطاب میں ٹریزا مے نے کہا کہ اب تک یورپی سطح پر جو تجارتی معاہدے پائے جاتے ہیں، انہی کی طرز پر لیکن بریگزٹ کے بعد کے دور میں یورپی یونین کے برطانیہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کا تصور بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے برطانوی یورپی تجارتی تعلقات کے لیے نئے ماڈلز کا تیار کیا جانا لازمی ہو گا۔
ٹریزا مے نے کہا کہ یورپی یونین اب تک جن تجارتی ماڈلز پر عمل پیرا ہے، اور جن کا اطلاق یونین سے باہر کے ناروے اور کینیڈا جیسے ممالک پر بھی ہوتا ہے، وہ مستقبل میں لندن اور برسلز کے مابین تجارتی روابط کے سلسلے میں لندن کی خواہشات کی عکاسی نہیں کرتے۔
جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے ساتھ انٹرویو میں ٹریزا مے نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ لندن اور برسلز کے مابین مارچ 2019ء کے بعد کے دور کے لیے ایک نیا اور قابل عمل کسٹمز معاہدہ قابل قبول ثابت ہو سکتا ہے۔
2016ء: ان بارہ اہم واقعات نے ماحول اور موسم پر اثرات ڈالے
رواں برس ختم ہونے کے قریب ہے اور سیاسی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے یاد رہے گا۔ اسی برس بریگزٹ اور امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج نے ماحولیاتی کیلینڈر پر نشان ثبت کیے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے سن 2016 کے بارہ اہم واقعات کچھ یوں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Nigro
جنوری: موسمی انتشار
عالمی سطح پرموسم میں پائے جانے والے عدم استحکام نے موسم سرما کو شدید کر دیا۔ فضائی آلودگی کے خدشات اور اندیشوں کے ساتھ اقوام عالم سن 2016 میں داخل ہوئیں۔ ڈوئچے ویلے نے رپورٹ کیا کہ موسم میں افراتفری یقینی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
تصویر: picture alliance/R. Kalb
فروری: سانس روکے رکھیں
سال کے سب سے چھوٹے مہینے میں بھی بہتر انداز میں سانس لینے کی مہلت دستیاب نہیں ہوئی۔ فضائی آلودگی کی صورت حال جرمنی سے چین اور پھر بھارت تک پائی گئی۔اس فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت اور صحت کے گھمبیر معاملات میں اضافہ دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ How Hwee Young
مارچ: جوہری آلودگی کا تسلسل
جاپانی جوہری پلانٹ فوکوشیما کے زلزلے اور پھر سونامی کے نتیجے میں تباہ ہونے کے پانچ برس مکمل ہو گئے۔ جرمنی اپنے جوہری پاور سیکٹر سے بتدریج باہر نکلتے ہوئے متبادل انرجی پر انحصار کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں مصروف رہا۔ جرمنی میں ابھی بھی ایک سو کے قریب جوہری ری ایکٹرز چالو ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
اپریل: امریکا میں دریائے میسوری کو بچانے کی کوششیں
سن 2016 کے مہینے اپریل میں شمالی ڈاکوٹا کی چٹان سیوکس کے باسیوں نے دریائے میسوری کے تحفظ کے لیے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس احتجاج نے رواں برس کے نویں مہینے ستمبر تک زور پکڑ لیا اور عالمی سطح پر بھی اِسے حمایت حاصل ہو گئی۔ اوباما انتظامیہ نے پائپ لائن کی تعمیر کو روک دی۔ اس طرح مقامی امریکیوں کی تحریک نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی لیکن ابھی بھی یہ پلان معطل ہے، ختم نہیں کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Nigro
مئی: کورال چٹانوں کی تباہی
مسلسل انتباہی پیغامات کے باوجود جب احتیاطی عمل شروع نہ ہوا تو آسٹریلیائی ریاست کوئنزلینڈ کے قریب زیرسمندر کورال چٹانوں کے ایک وسیع حصے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا۔ آسٹریلوی کورال چٹانوں کو زیرسمندر ایک عجوبے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کی کورال چٹانوں میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور شکست و ریخت کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور ال نینو کا منفی اثر قرار دیا گیا۔
تصویر: XL Catlin Seaview Survey
جون: شدید موسم کی واپسی
موسم سرما کی طرح کئی ملکوں کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا یہ ایک اور شاخسانہ قرار دیا گیا۔ زیادہ درجہٴ حرارت سے مختلف جنگلاتی علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات سامنے آئے۔ کئی ممالک میں پیدا ہونے والی خشک سالی سے ہزاروں انسان متاثر ہوئے۔ کچھ علاقوں میں شدید بارشیں سیلاب کا سبب بنی اور بےشمار انسان ہلاک ہوئے۔ یہ حیران کن نہیں کہ سن 2016 تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Mcnew
جولائی: سیاست اور ماحولیات
مختلف ریفرنڈمز کے حیران کُن نتائج نے یورپی ماحولیاتی تحفظ اور ماہی گیری کی پالیسوں کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ بریگزٹ کے بعد نئی برطانوی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی حکومت کا محکمہ برائے توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی کو بند کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/T. Nicholson
اگست: ریو اولمپکس اور ماحولیاتی آلودگی
اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے موقع پر ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ بھی زیر غور رہا۔ برازیل کے خلیج گوانابارا کو زہریلے اور کیمیاوی فضلے کا سامنا رہا۔ یہی خلیج گوانابارا اولمپک گیمز کے کشتی رانی کے مقابلوں کا مقام بھی تھا۔ اولمپک گیمز ایک موقع تھا کہ اِس خلیج کو آلودگی سے پاک کر دیا جائے لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔
تصویر: DW/P. Neitzsch
ستمبر: ماحولیاتی ڈیل کے لیے پیش رفت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت دیکھتے ہوئے مختلف ملکوں نے پیرس کی کلائمیٹ ڈیل کی توثیق کر دی۔ توثیق کرنے والوں میں میں چین اور امریکا بھی شامل تھے۔ ان دونوں بڑے ملکوں کی دیکھا دیکھی درجنوں دوسرے ملک بھی توثیق کے عمل میں شریک ہو گئے۔
تصویر: Reuters/H. Hwee Young
اکتوبر: ماحولیاتی تنوع پر توجہ
جنوبی افریقی شہر جوہانس برگ میں ناپید ہونے والی نباتات و حیوانات کی بین الاقوامی تجارت کو روکنے کے لیے ایک کنونش کا انعقاد کیا گیا۔ ان ناپید ہونے والی جانوروں میں ہاتھی، گینڈے اور پینگولین خاص طور پر نمایاں ہیں کیونکہ اگر جلد حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین پر سے نابود ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
نومبر: دنیا لرز کر رہ گئی
امریکا کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد پیرس کلائمیٹ ڈیل کی توثیق پر نظرثانی کریں گے۔ ان اعلانات سے ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں میں تشویش کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Allegri
دسمبر: گرم ترین سال
سن 2016 محفوظ کی گئی تاریخ میں گرم ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس برس کے دوران عالمی سطح پر اوسطاً ایک درجہ سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2017 ماحولیات کی بہتری کے لیے عالمی کاوشوں کا سال ہو سکتا ہے یا نہیں۔