سکاٹ لینڈ کی ایک عدالت برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج یا بریگزٹ کے خلاف مقدمے میں فیصلہ اگلے ہفتے سنائے گی۔ اسی دوران لندن میں ملکی حکومت نے کہا ہے کہ بریگزٹ کے ساتھ برطانیہ یورپی کسٹمز یونین سے بھی نکل جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے دو فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی ایک عدالت کے ایک جج کی طرف سے یہ فیصلہ اگلے ہفتے کے اوائل میں سنایا جائے گا کہ آیا صرف برطانیہ کو اکیلے ہی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یورپی یونین کی رکنیت ترک کرنے کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کر سکے۔
سکاٹ لینڈ کی رائل کورٹ آف سیشنز کے ایک ترجمان نے آج جمعے کے روز بتایا کہ یہ مقدمہ ایسے برطانوی اراکین پارلیمان کے ایک گروپ کی طرف سے دائر کیا گیا ہے، جو برطانیہ کے آئندہ بھی یونین کا رکن رہنے کے حق میں ہیں اور یہ فیصلہ پیر پانچ فروری یا منگل چھ فروری کو سنایا جا سکتا ہے۔
اس مقدمے میں درخواست دہندگان نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک بار جب یہ طے ہو جائے کہ بریگزٹ کے فیصلے پر ممکنہ عمل درآمد کے معیشت اور سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، تو برطانیہ کو اپنے لیے یہ راستہ بھی کھلا رکھنا چاہیے کہ وہ آئندہ بھی یورپی یونین میں شامل ہی رہے، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے۔ سکاٹش عدالت کے فیصلے سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ آیا یہ رائل کورٹ اس مقدمے کو یورپی عدالت انصاف میں بھیج دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/Y. Mok
بریگزٹ کے لیے لازمی کارروائی کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے یورپی یونین کو باقاعدہ طور پر یہ اطلاع کر چکی ہیں کہ ان کا ملک لزبن معاہدے کے آرٹیکل پچاس کے تحت یورپی یونین سے اخراج کا خواہش مند ہے۔
ٹریزا مے نے یورپی یونین کی قیادت کو سرکاری طور پر یہ اطلاع 29 مارچ 2017ء کو دی تھی اور اب 29 مارچ 2019ء تک دو سال کے عرصے کے اندر اندر بریگزٹ کا عمل مکمل کیا جانا ہے۔ ساتھ ہی مے یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ وہ یہ برداشت نہیں کریں گی کہ بریگزٹ کے عوامی فیصلے پر قانونی عمل درآمد کی راہ میں اب برطانوی پارلیمان میں کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔
یورپی یونین کا سربراہی اجلاس، اہم فیصلے
03:01
This browser does not support the video element.
اس کے برعکس گزشتہ برس دسمبر میں برٹش پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے مے کی خواہشات کے برخلاف نہ صرف پارلیمان میں ایک رائے شماری بھی کرائی تھی بلکہ انہیں کافی حد تک یہ مشروط اختیار بھی مل گیا تھا کہ وہ بریگزٹ سے متعلق حتمی یورپی برطانوی معاہدے کو قبول کرنے یا اسے مسترد کرنے کا حق بھی حاصل کر سکیں۔
دریں اثناء لندن ہی میں وزیر اعظم ٹریزا مے کے ایک ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ جب برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا تو وہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ملک بھی نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تب برطانیہ یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ بھی نہیں ہو گا۔
اسی دوران بریگزٹ امور کے نگران برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ ان کے اپنے یورپی مذاکراتی ساتھی اور یونین کے اعلیٰ ترین مذاکراتی مندوب میشیَل بارنیئر کے ساتھ بات چیت کا اگلا دور آئندہ ہفتے پانچ فروری کو لندن میں ہو گا۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔