بریگزٹ سے پہلے ٹریزا مے کی وزارت عظمیٰ کا ’خاتمہ قریب تر‘
24 مارچ 2019
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی بریگزٹ سے متعلق سیاست پر ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کی کابینہ کے گیارہ وزراء مبینہ طور پر انہیں استعفے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار سنڈے ٹائمز نے تو ’بغاوت‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔
اشتہار
اس بارے میں برطانوی جریدے سنڈے ٹائمز کے ایڈیٹر ٹِم شپ مین نے ہفتہ تئیس مارچ کی رات اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’مے کی کابینہ کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف ایک بغاوت زیر عمل ہے۔‘‘ اس سلسلے میں اس برطانوی صحافی نے ملکی کابینہ کے گیارہ ایسے وزراء کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیا، جو اب یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ٹریزا مے کو حکومتی سربراہ کے عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
مختلف خبر رساں اداروں نے ٹِم شپ مین کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا ہے کہ کابینہ کے ایک رکن نے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، سنڈے ٹائمز کے اس مدیر کو بتایا، ’’(مے کا) اختتام قریب ہے۔ وہ دس روز بعد برطانیہ کی وزیر اعظم نہیں ہوں گی۔‘‘
لندن سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق ٹِم شپ مین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ٹریزا مے کو نئے ہفتے کے آغاز پر پیر پچیس مارچ کو ہی اس مطالبے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہو جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مے کی جگہ کسی ایسے سیاستدان کو عبوری سربراہ حکومت بنایا جائے گا، جو برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے عمل کو بخوبی مکمل کر سکے۔
تین اہم نام
چند خبر رساں اداروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عبوری سربراہ حکومت کے عہدے کے لیے ٹریزا مے کا جانشین ممکنہ طور پر جن سیاستدانوں میں ایک ہو سکتا ہے، وہ مے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن، وزیر ماحولیات مائیکل گَوو اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ ہیں۔
ٹریزا مے نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے لیے برسلز میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ جو معاہدہ طے کیا تھا، اسے لندن کی پارلیمان وسط جنوری اور وسط مارچ میں دو مرتبہ مسترد کر چکی ہے۔ اب اسی بریگزٹ ڈیل پر ایک تیسری ممکنہ رائے شماری آئندہ ہفتے متوقع ہے جبکہ پروگرام کے مطابق برطانیہ کی طرف سے اپنے لیے طے کردہ بریگزٹ کی 29 مارچ کی ڈیڈ لائن پوری ہونے میں آج اتوار کو صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں۔
ڈیوڈ لیڈنگٹن کی عدم دلچسپی
لندن سے موصولہ تازہ رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم ٹریزا مے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن نے آج اتوار کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا، ’’میری رائے میں وزیر اعظم مے اپنی ذمے داریاں بہترین طور پر انجام دی رہی ہیں اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں اپنے لیے ان کے عہدے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہوں۔‘‘
قصور وار کون
لندن میں دارالعوام نے حال ہی میں جب دوسری مرتبہ مے کی بریگزٹ ڈیل کو اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا تھا، تو مے نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں اسی ایوان کے منتخب ارکان کو قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’’اس بات کے اہل نہیں کہ برطانیہ کے یونین سے اخراج کے منصوبے پر عمل درآمد کے راستے سے متعلق آپس میں کسی اتفاق رائے تک پہنچ سکتے۔‘‘ ماہرین کے نزدیک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اس موقع پر مے نے اسی عمل کے دوران خود اپنے سیاسی کردار کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے تردید بھی
برطانوی میڈیا میں ٹریزا مے کے ممکنہ طور پر آئندہ دنوں میں سربراہ حکومت کے عہدے سے علیحدہ ہو جانے سے متعلق رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے متعدد حکومتی ذرائع نے اتوار چوبیس مارچ کو انہیں ’غلط‘ قرار دیا۔ وزیر خزانہ اور ٹریزا مے کے قریبی معتمد فیلپ ہیمنڈ نے بھی کہا کہ ان کی رائے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ مے کے دور حکومت کے خاتمے کی کسی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے۔
م م / ع س / روئٹرز، ڈی پی اے، ٹوئٹر
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔