ڈنمارک کے ایک قدامت پسند اخبار نےانگیلا میرکل کی بطور جرمن چانسلر چوتھی بار نامزدگی کے تناظر میں کہا ہے کہ جرمنی سمیت تمام یورپی رہنماؤں کو اپنے عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اشتہار
ڈنمارک کے ایک قدامت پسند اخبار نے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں انگیلا میرکل کی بطور جرمن چانسلر چوتھی بار نامزدگی کے تناظر میں کہا ہے کہ جرمنی سمیت تمام یورپی رہنماؤں کو اپنے عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔
قدامت پسند روزنامہ Berlingske نہ صرف ڈنمارک بلکہ دنیا کے قدیم ترین اخباروں میں سے ایک ہے۔ اس اخبار میں امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ریپبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد متعدد مضامین اور تبصرے شائع ہوئے، جن میں اُن تمام خدشات کا اظہار کیا گیا جو امریکا سمیت تمام دنیا کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں اب پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کے اس اخبار نے گزشتہ اتوار کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے اُس اعلان پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جس میں میرکل نے نہایت پُر عزم اور مستحکم انداز میں یہ کہا کہ وہ 2017ء میں جرمنی کے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر چانسلر کے عہدے کے لیے اپنی نامزدگی کو نہایت اہم سمجھتی ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو اور اُس کی ہم خیال اور اُس سے قریب ترین سیاسی پارٹی کرسچین سوشل یونین سی ایس یو نے موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے ملک جرمنی کی قیادت پر اِس وقت دُہری ذمہ داری عائد ہے اور اُس کے لیے انگیلا میرکل جیسے مضبوط، ٹھوس اور مخلص قائد کی اشد ضرورت ہے۔
میرکل اور یورپی چیلنجز
ڈنمارک کے اخبار نے تاہم میرکل کی 2017 ء کے لیے بطور جرمن چانسلر نامزدگی کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم امور پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ڈینش روزنامے کے ایک حالیہ تبصرے کے الفاظ کچھ یوں تھے،’’امریکا کے صدارتی الیکشن کے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد ہی میرکل نے جرمنی اور یورپ میں احتحاجی مہمات کے خلاف لبرل یا آزاد خیال اقدار کی آخری فصیلیں کھڑی کردیں، جن کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مغربی دنیا کو چکرا کر رکھ دیں گی۔ لیکن یہ ایک خطرناک خیال ہے۔ اگر میرکل کی کامیابی یقینی ہو تب بھی دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کو اپنے عوام میں پائی جانے والے عدم اطمینان کی وجوہات سے نمٹنا ہو گا۔ اور اس ضمن میں سب سے اہم مہاجرین اور تارکین وطن کا بحران ہے۔ یہاں یورپی یونین نے واضح غلطیاں کی ہیں۔ اگر میرکل اور دیگر یورپی رہنماؤں نے کوئی پائیدار اور طویل المیعاد حل تلاش نہ کیا، جو کہ انتہائی دشوار گزار عمل ہوگا، تو میرکل ایک نہایت مشکل صورتحال سے دو چار ہوں گی۔ پھر میرکل کے لیے آئندہ الیکشن میں بطور جرمن چانسلر اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز پیش کرنا مشکل ہوگا۔ خاص طور سے اُن ووٹرز کے سامنے جو اپنے ووٹوں کا حقدار میرکل کو ہی سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
قدامت پسند سیاسی رہنماؤں کی میراث
16 سال سے کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کی قائد چلی آ رہی انگیلا میرکل کا شمار اس وقت دنیا کے طاقتور ترین لیڈروں میں بھی ہو رہا ہے۔ مسلسل تین بار چانسلر کے عہدے پر فائض رہنے کے بعد اگر میرکل چوتھی بار بھی جرمنی کی چانسلر بنیں تو یہ جرمنی کی موجودہ تاریخ کا دوسرا موقع ہوگا۔ ان سے پہلے سی ڈی یو ہی کے سیاستدان ہیلمُوٹ کوہل چار مرتبہ یعنی مسلسل 16 برس تک جرمنی کے چانسلر رہے تھے۔ انہیں جدید جرمنی کے بانی کی حیثیت رکھنے والے معروف جرمن سیاستدان اُٹو فان بسمارک کے بعد طویل ترین عرصے تک چانسلر کے عہدے پر فائض رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اس وقت دنیا کی ایک ایسی سیاسی شخصیت سمجھا جا رہا ہے، جن کی مہاجر دوست پالیسی کے سبب اندرون ملک کسی حد تک اُن کی مقبولیت میں کمی ضرور پیدا ہوئی لیکن اُنہوں نے اپنا موقف نہ تو تبدیل کیا اور نہ ہی اس ضمن میں انہوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ تنقید اور مخالفتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے والی سیاستدان ہیں۔ میرکل ایک نہایت مضبوط، ٹھوس اور دور اندیش لیڈر ہیں۔ انہیں ایک محنتی اور اپنے ملک و قوم کے ساتھ انتہائی مخلص رہنما کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
میرکل کے عزائم
میرکل نے جس وقت چوتھی بار بطور چانسلر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اُس وقت انہوں نے اُن تمام چیلنجز اور مشکلات کا اعتراف بھی کیا جن کا اُنہیں سامنا ہو سکتا ہے۔ اور مستقبل میں بھی ان کا یہ امیج قائم رہے گا۔
میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی بنی ہوئی ہے جو میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے خلاف اپنی بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور جرمنی کی 16 صوبائی پارلیمانوں میں سے 10 میں اے ایف ڈی کو نمائندگی حاصل ہو چکی ہے۔ تاہم امریکی وائٹ ہاؤس میں آئندہ برس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی وہ اہم ترین محرک ہے جس کے سبب جرمنی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں یہ تاثرات پائے جاتے ہیں کہ مغربی اقدار اور یکجہتی کا تحفظ انگیلا میرکل جیسی مضبوط سیاسی شخصیت ہی کر سکتی ہے۔ ایک وسیع تر یورپی، مغربی اور بین الاقوامی پس منظر میں دیکھا جائے تو بہت سے ماہرین کا یہ قول درست نظر آ رہا ہے کہ’’میرکل آزاد دنیا کی نئی قائد ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ میرکل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر انہیں مبارکباد تو پیش کی تھی تاہم ساتھ ہی واضح کر دیا تھا کہ امریکا اور یورپ کے تعلقات اور قریبی تعاون کی بنیاد جمہوری اقدار، آزادی، قانون کے احترام ، رنگ و نسل، مذہب و جنس اور سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر انسانی وقار پر ہی رکھی جانا چاہیے۔