بریگزٹ: غیرملکیوں کے خلاف نسل پرستانہ خط، ’صرف انگریزی بولو‘
2 فروری 2020
بریگزٹ کے بعد انگلینڈ کے شہر نوروِچ سے غیر ملکیوں سے نفرت کے پہلے واقعے کی اطلاع ملی ہے۔ ایک پندرہ منزلہ عمارت کے مکینوں سے کہا گیا، ’’انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے والے کسی فرد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اشتہار
برطانیہ نے یورپی یونین سے اکتیس جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ یہ واقعہ بریگزٹ کی رات نوروِچ میں پیش آیا۔ اس واقعے میں نامعلوم افراد نے ایک پندرہ منزلہ رہائشی عمارت کی ہر منزل پر ہر فلیٹ کے دروازے کے باہر ایک خط چسپاں کر دیا گیا تھا۔ ایک صفحے پر مشتمل اس کھلے خط کو 'ہیپی بریگزٹ ڈے‘ یا 'بریگزٹ کا دن مبارک‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔
اس نسل پرستانہ اور غیر ملکیوں سے نفرت کے عکاس خط کے اس طرح عام لوگوں کے گھروں کے باہر جسپاں کیے جانے کے واقعے کی برطانوی سوشل میڈیا پر شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ واضح طور پر نسل پرستانہ منافرت کا ایک واقعہ ہے، جس کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
اس خط میں اس عمارت کے مکینوں سے کہا گیا، ''ہم ان فلیٹوں میں کسی بھی ایسے شخص کے مقیم رہنے کو برداشت نہیں کریں گے، جو انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولتا ہو۔ جو کوئی بھی اس بات پر عمل کرنے کا خواہش مند نہ ہو، اسے واپس اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے۔‘‘
اس خط کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویروں کے مطابق اس میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا ہے، ''اب ہم واپس اپنے ہی وطن میں آ گئے ہیں۔‘‘ مشرقی انگلینڈ کے اس شہر کی انتظامیہ نے اس خط کی اس طرح تقسیم اور اس میں لکھی گئی نسل پرستانہ باتوں پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔
نوروِچ کی شہری انتظامیہ کی طرف سے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا گیا، ''پولیس اس واقعے کی چھان بین کر رہی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نوروِچ کی انتظامیہ کسی کی طرف سے بھی اس طرح کے رویے کو قطعاﹰ برداشت نہیں کرے گی۔‘‘ شہر کی بلدیاتی کونسل کے ایک رکن نے مقامی اخبار 'ایسٹرن ڈیلی پریس‘ کو بتایا، ''نوروِچ کو اپنی تاریخ پر فخر ہے اور اس بات پر بھی کہ یہ لوگوں کا خیرمقدم کرنے والا شہر ہے۔ جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، وہ نفرت پھیلانے کے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔‘‘
اس بارے میں مقامی پولیس کی ایک ترجمان نے کہا، ''یہ واضح طور پر ایک نسل پرستانہ جرم ہے اور برطانوی معاشرے میں نفرت، نسل پرستی اور عدم برداشت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
برطانوی میڈیا کے مطابق یہ خط جمعہ 31 جنوری اور ہفتہ یکم فروری کی درمیانی رات جس کثیر المنزلہ عمارت میں تمام اپارٹمنٹس کے باہر چسپاں کیا گیا، اس میں زیادہ تر ایسے افراد رہائش پذیر ہیں، جن کی عمریں 55 برس یا اس سے زیادہ ہیں۔
م م / ش ح (ڈی پی اے)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔