بریگزٹ فی الحال ’ناممکن‘، برطانیہ یورپی الیکشن میں حصہ لے گا
7 مئی 2019
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن نے کہا ہے کہ اگرچہ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے تاہم یورپی یونین کے ایک رکن ملک کے طور پر برطانیہ کو تئیس مئی کو ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینا ہی پڑے گا۔
اشتہار
لندن سے ملنے والی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق برٹش کیبنٹ آفس کے وزیر ڈیوڈ لیڈنگٹن نے منگل کے روز کہا کہ چونکہ اب اتنا وقت بچا ہی نہیں کہ یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے بریگزٹ کے معاہدے کو ملکی پارلیمان سے منظور کروا کر لندن یورپی یونین سے بروقت نکل جائے، اس لیے برطانیہ کو اب اسی مہینے ہونے والے یورپی پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینا ہی پڑے گا۔
لیڈنگٹن نے کہا کہ وزیر اعظم ٹریزا مے کی حکومت نے ملکی سیاست میں بریگزٹ کے معاملے پر تعطل کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے ساتھ جس بات چیت کا آغاز کیا تھا، وہ توقعات کے برعکس اب تک تقریباﹰ جمود کا شکار ہے اور اس میں کوئی بڑی اور فوری پیش رفت نہیں ہو سکی۔
اس سلسلے میں کیبنٹ آفس کے وزیر نے، جو عملاﹰ ملکی وزیر اعظم کے نائب سمجھے جاتے ہیں، کہا کہ لیبر پارٹی کے ساتھ مذاکرات اب بھی جاری ہیں مگر اس بات سے قطع نظر کہ ان کے آئندہ نتائج کیا ہوں گے، حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات میں اب برطانیہ کو بھی حصہ لینا ہی ہو گا۔
برطانوی میڈیا پر نشر کیے گئے ڈیوڈ لیڈنگٹن کے ایک بیان کے مطابق، ’’یہ بات قابل افسوس ہے لیکن اب ایسا ہونا ممکن نہیں کہ برطانیہ میں اسی ماہ کی 23 تاریخ کو ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات سے قبل بریگزٹ کے معاہدے کو ملکی پارلیمان کی منظوری حاصل ہو جائے۔‘‘ وزیر اعظم مے کے نائب اس برطانوی وزیر نے کہا، ’’ہمیں بہت امید تھی اور ہم نے بہت کوشش بھی کی کہ ہمیں برطانیہ میں یورپی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد نہ ہی کرانا پڑے، لیکن اب ایسا ہو کر رہے گا۔‘‘
ساتھ ہی ڈیوڈ لیڈنگٹن نے یہ بھی کہا، ’’یورپی یونین کے ایک تاحال رکن ملک کے طور پر ہمیں اب برطانیہ میں بھی یورپی انتخابات کا انعقاد کرانا تو پڑے گا لیکن میں امید کرتا ہوں کہ ایسی کوئی صورت بالکل پیدا نہ ہو کہ ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے برطانوی نمائندوں کو یورپی پارلیمان میں اپنی نشستوں پر بیٹھنا بھی پڑے۔‘‘
ان کا مطلب یہ تھا کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات کے بعد، جس میں برطانیہ سے بھی اسٹراس برگ کی پارلیمان کے اراکین کا چناؤ کیا جائے گا، اگر اولین اجلاس سے پہلے ہی برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا، تو پھر برطانوی ارکان کی یورپی پارلیمان کے منتخب اراکین کے طور پر رکنیت بھی خود بجود ختم ہو جائے گی۔
م م / ا ا / روئٹرز، اے ایف پی
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔