برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے برطانوی انخلا کے سلسلے میں جاری مذاکرات اب وہ خود کریں گی۔ بریگزٹ وزیر کو اس تناظر میں داخلی امور پر توجہ دینے کا ہدف دیا گیا ہے۔
اشتہار
منگل کو ٹیریزا مے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اب یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ کے موضوع پر بات چیت وہ خود کریں گی جب کہ ان کے نئے بریگزٹ وزیر انہیں معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین سے اخراج کے تناظر میں داخلی امور پر توجہ دیں گے۔
مے نے اپنی کابینہ میں ذمہ داریوں میں تبدیلی سے متعلق یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا ہے، جب کہ حالیہ کچھ عرصے میں برطانیہ میں متعدد وزرا کے استعفوں کے ساتھ ساتھ بریگزٹ کے موضوع پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔ آئندہ برس مارچ تک برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت ختم کرنے والا ہے، تاہم اب تک برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان کوئی ڈیل طے نہیں پا سکی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ نو جولائی کو بریگزٹ وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وزیراعظم مے کے منصوبے کے تحت یورپی یونین کے ساتھ انتہائی قریبی اقتصادی تعلق برقرار رہے گا۔ مے نے ڈیوس کے بعد سخت گیر موقف کے حامل ڈومینیک راب کو بریگزٹ وزیر کا عہدہ تفویض کیا تھا۔
وزیراعظم مے بریگزٹ سے متعلق اپنے منصوبے پر اپوزیشن کی تنقید کو رد کرتی ہیں، تاہم ان کی اپنی جماعت کے متعدد قانون ساز بھی اس منصوبے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین سے واضح اور صاف انداز سے راہ جدا کی جائے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
پارلیمان کے نام اپنے مراسلے میں مے نے کہا ہے کہ ان کا کابینہ دفتر بریگزٹ معاملے کی ’تمام تر ذمہ داری‘ کا حامل ہو گا جب کہ کابینہ دفتر کا یورپی یونٹ اولی رابنز کی قیادت میں ان کی معاونت کرے گا، جب کہ بریگزٹ دفتر راب کی سربراہی میں معاون کا کردار ادا کرتا رہے گا۔ راب کے دفتر کو تاہم کلیدی ذمہ داری بریگزٹ کے بعد داخلی سطح پر اثرات کی بابت تیاری کرنے کی ہو گی۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے شیڈو بریگزٹ وزیر جینی چاپمن نے تاہم مے کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ڈومینک راب کو اپنی ذمہ داری سنبھالتے ہی اور وزیراعظم کی جانب سے ایک طرف ہٹا دیا گیا۔‘‘