برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین راتوں رات ہونے والی ’ٹیلیفون ڈپلومیسی‘ کے ذریعے بریگزٹ مذاکرات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اشتہار
اس حوالے سے یورپین کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کا کہنا تھا،’’میرا یہ ماننا ہے کہ ہم نے ایک اہم مرحلہ عبور کیا ہے جس کی بے حد ضرورت تھی۔‘‘ یہ بات انہوں نے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
اس پریس کانفرنس میں ژاں کلود یُنکر کا یہ بھی کہا کہ وہ یورپی یونین کے رہنماؤں کو تجویز دیں گے کہ بریگزیٹ کے حوالے سے ہونے والی اس اہم پیش رفت کے بعد اب مستقبل میں تعلقات اور تجارت کے سلسلے میں بات چیت کا آغاز کریں۔
اس دوران یہ تو نہیں بتایا گیا کہ تجارتی حوالے سے آئرلینڈ کی سرحد کے بارے میں برطانیہ اور یورپی یونین کس طرح سے اپنے اختلاف کو سلجھائیں گے۔ تاہم اس سے اس جانب اشارہ ضرور دیا گیا کہ اصل میں اب سب باتوں کا انحصار برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین آئندہ ہونے والےتجارتی مذاکرات پر ہو گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپی رہنما چودہ دسمبر کو برسلز میں ملاقات کر رہے ہیں جس دوران امکان یہ ہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ برطانیہ کے لیے مالی تصفیہ، آئرلینڈ کی سرحدی حیثیت اور بریگزٹ کے بعد شہری حقوق جیسے معاملات پر اب تک ہونے والی پیش رفت پر اعتماد کا اظہار کریں گے۔ اس کے بعد مذکرات کا اگلا مرحلہ شروع کیا جا سکے گا۔
اس سے قبل بریگزٹ مذاکرات کو اگلے مرحلے تک پہنچانے کے لیے برطانیہ اور یورپی اتحاد کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ، برطانیہ کی مخلوط حکومت کی کلیدی پارٹی، ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی، ڈی یو پی کے آئرلینڈ کے سرحدی معاملات پر رعایت دینے سے انکار تھی۔
برطانیہ شمالی آئرلینڈ کے یورپی اتحاد کی ’کسٹمز یونین‘ اور ’سنگل مارکیٹ‘ رہنے سے متعلق نام کے سوا تقریباً ہر بات ماننے پر تیار تھا لیکن ڈی یو پی کی رہنما آرلین فوسٹر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایسے قواعد کو تسلیم نہیں کرے گی جو شمالی آئرلینڈ کو برطانیہ سے الگ کرتے ہوں۔ اس اختلاف کے بعد مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔