بریگزٹ معاہدے کی توثیق ’یورپی یونین کے لیے افسوس ناک لمحہ‘
25 نومبر 2018
برسلز میں آج ہونے والے یورپی یونین کے ایک خصوصی سربراہ اجلاس کے دوران بریگزٹ معاہدے کی توثیق کر دی گئی ہے۔ یورپی یونین کے لیے یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں کیونکہ اب اس یورپی اتحاد میں باقاعدہ پہلی دراڑ پڑ چکی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/D. Leal-Olivas
اشتہار
یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کے باقی رہ جانےوالے ستائیس ارکان نے برطانیہ کے اس اتحاد سے انخلاء کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے، ’’27 رکنی بلاک نے یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کے معاہدے اور مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے سیاسی اعلامیے کو منظور کر لیا ہے۔‘‘ اس معاہدے کے تحت اگلے برس انتیس مارچ کو برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا جبکہ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے ایک فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے۔ تاہم اب برطانوی پارلیمان اس معاہدے کو منظور کرے گی۔
تصویر: Reuters/O. Hoslet
اس موقع پر یورپی یونین نے برطانیہ کو اقتصادی اور سیاسی شعبے میں ایک پر عزم شراکت داری کی پیشکش بھی کی ہے۔ اس سے قبل یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے کہا تھا کہ بریگزٹ ان کے لیے ایک افسوس ناک لمحہ ہے۔ انہوں نے تاہم اس امید کا اظہار کیا کہ برطانوی پارلیمان بریگزٹ ڈیل کے مسودے کو منظور کر لے گی۔ ینکر نے اسے ایک بہترین ممکنہ معاہدہ قرار دیا۔
انخلاء کے اس معاہدے کے تحت عبوری عرصے یعنی 2020ء کے آخر تک برطانیہ یورپی یونین کی داخلہ منڈی اور کسٹم یونین کا حصہ رہے گا۔ عبوری مدت کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی، جو کہ حتمی معاہدے کی نگرانی کرے گی اور باہمی رضامندی سے اسی معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مزید فیصلے کیے جا سکیں گے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
اس کے علاوہ اس معاہدے کی رو سے یورپی یونین کے رکن ممالک اور برطانیہ کے شہریوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے گا، مالیاتی مسائل کو حل کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی درمیان سرحد سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینا بھی اس معاہدہ کا حصہ ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا کہ یہ معاہدہ قومی مفاد میں ہےاور اس کے ساتھ ساتھ یہ یورپی یونین سے انخلاء کے حق اور مخالفین کے تحفظات کو بھی دور کرتا ہے، ’’ یہ روشن مستقبل کے لیے ایک معاہدہ ہے، جو ہمارے لیے یہ ممکن بناتا ہے کہ ہم مواقعوں استعمال کر سکیں۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے تمام برطانوی شہریوں سے اس معاہدے کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بریگزٹ کے بعد آزاد نقل و حرکت کا مستقبل کیا ہو گا؟