’اپنی نسلوں کی بھلائی کے لیے بریگزٹ کا فیصلہ تبدیل کر لیں‘
15 جنوری 2019
یورپی یونین کے ایک سو سے زائد ارکان پارلیمان نے لندن حکومت کے نام لکھے گئے کھلے خط میں جذباتی انداز میں اپیل کی ہے کہ برطانوی حکومت اپنی آئندہ نسلوں کی بھلائی کی خاطر یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ تبدیل کر دے۔
اشتہار
یورپی یونین کے ان ارکان پارلیمان کا کہنا ہے کہ وہ اس کھلے خط کے ذریعے برطانیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر وہ بریگزٹ کا فیصلہ ختم کر دے تو انہیں یونین میں خوش آمدید کہا جائے گا۔
جرمنی کے فنکے میڈیا گروپ کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے اس خط کے مندرجات کے مطابق ای یو کے ان قانون سازوں نے جذباتی انداز میں لندن حکومت سے یونین میں رہنے کی اپیل کی ہے۔
ایک سو سے زائد ارکان کی جانب سے یہ خط پیر چودہ جنوری کو لکھا گیا جب کہ آج پندرہ جنوری کے روز برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم مے کے بریگزٹ معاہدے کے بارے میں ووٹنگ کی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ووٹنگ میں زیادہ امکان یہی ہے کہ ارکان کی اکثریت معاہدے کے خلاف فیصلہ کرے گی۔
مے حکومت کے لیے مشکل صورت حال کا فیصلہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی پارٹی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار گاریتھ جانسن نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ حکومتی موقف کی حمایت نہیں کر سکتے۔
کھلے خط میں کیا لکھا گیا؟
اس خط کے کچھ اہم مندرجات درج ذیل ہیں
’یورپی یونین سے نکلنے کے بجائے یونین میں اصلاحات کے لیے کام کرنا زیادہ بہتر ہے‘۔
’یونین کا حصہ رہنے کے کسی بھی برطانوی فیصلے کو ہم خوش آمدید کہیں گے‘۔
’ہم آپ کے ساتھ مل کر یورپی یونین میں اصلاحات کرنے کو تیار ہیں‘۔
’ہم نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران برطانوی سیاست دانوں اور عوام کے اثر و رسوخ کی قدر کی ہے‘۔
'بریگزٹ کے بعد ہم اپنے ماہر برطانوی ساتھیوں کی کمی محسوس کریں گے‘۔
سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن پیٹر لیزے بھی اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ فُنکے میڈیا گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس خط کا مقصد برطانوی عوام اور سیاست دانوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ برطانیہ اگر یونین میں شامل رہنا چاہے تو ایسے فیصلے کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
ش ح / ع ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔