یورپی یونین کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ بریگزٹ پر شدید مذاکراتی عمل کے دوران مناسب پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ اس باعث سترہ اور اٹھارہ نومبر کی سمٹ کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اشتہار
یونین کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ یورپی سربراہانِ حکومت کا کہنا ہے کہ سربراہ اجلاس اُسی صورت میں بلایا جائے گا جب بریگزٹ کے حوالے سے کسی حتمی سمجھوتے کی کوئی یقینی صورت حال سامنے آئے گی۔ اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم ٹریزا مَے نے اپنے یورپی ہم منصبوں کے لیے پندرہ منٹ کی تقریر میں واضح کیا کہ مذاکراتی عمل کو کس صورت میں بچایا جا سکتا ہے۔
ٹریزا مَے نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ بریگزٹ معاہدے کی آخری منزل یعنی بریگزٹ کے معاہدے پر دستخط کے لیے حوصلے، اعتماد اور بھرپور قیادت فریقین کو درکار ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ مذاکراتی عمل میں گزشتہ اتوار سے پیدا شدہ تعطل بدستور موجود ہے۔
یورپی سفارتکاروں کا خیال ہے کہ برطانوی وزیراعظم یورپی خدشات کا پوری طرح احساس کرتی ہیں۔ اس میں آئرش حکومت کی وہ اہم ضرورت کہ جمہوریہ آئرلینڈ اور برطانوی علاقے شمالی آئرلینڈ کے درمیان موجود سرحد پر نقل و حمل کا سخت کنٹرول نہیں رکھا جائے گا۔
ٹریزا مَے کی تقریر کے بعد یہ تاثر بھی پایا گیا کہ اس میں کوئی نئی تجویز پیش نہیں کی گئی ہے۔ بریگزٹ کے لیے یورپی یونین کے مذاکرات کارِ اعلیٰ مشیل بارنیئر نے حتمی معاہدے کے حوالے سے واضح کیا کہ دونوں جانب سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی بھرپور کوششیں کی گئی لیکن ابھی فریقین منزل پر نہیں پہنچ پائے ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ کے اسپیکر انتونیو تاجانی بھی اُس تقریب میں موجود تھے، جس سے برطانوی وزیراعظم نے خطاب کیا۔ تاجانی نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مَے کا سیاسی پیغام مثبت ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ بریگزٹ ڈیل اب دور نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ برطانیہ کے بریگزٹ معاہدے کے بعد یورپی یونین سے مکمل علیحدہ ہونے کی عبوری کیفیت ایک سال تک جاری رہ سکتی ہے۔
دوسری جانب برطانوی وزیراعظم ٹریزا مَے کو اپنی قدامت پسند سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے یورپ بارے شکوک و شبہات رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں کو قائل کرنے کی مشکل کا بھی سامنا ہے۔ برطانیہ اگلے برس مارچ میں یورپی یونین کو خیرباد کہنے والا ہے اور کسی ڈیل کی عدم موجودگی میں یورپی یونین اور برطانیہ کو خطرناک اقتصادی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔