بریگزٹ ڈیڈ لائن، جانسن کے خط: توسیع کی حمایت بھی، مخالفت بھی
20 اکتوبر 2019
برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے یورپی یونین کو تین خطوط ارسال کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک غیر دستخط شدہ اور بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع سے متعلق ہے، دوسرا قانوناً توسیع کی درخواست کرنے اور تیسرا اس کی مخالفت میں ہے۔
اشتہار
اب یورپی یونین ان خطوط پر اپنا فیصلہ کرے گی۔ برطانوی وزیر اعطم بورس جانسن نے ہفتہ انیس اکتوبر کی شام یورپی یونین کے نام تین خطوط ارسال کیے ہیں۔ ان میں سے ایک خط بغیر دستخط کے بھیجا گیا ہے اور اس میں یورپی یونین سے برطانیہ کے یونین سے انخلا کی اب تک مقررہ تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ خط یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے نام تحریر کیا گیا ہے۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق برطانیہ اکتیس اکتوبر کو یونین سے علیحدہ ہونے والا ہے۔
دوسرا خط اُس قانون سازی کی روشنی میں لکھا گیا ہے، جس میں برطانوی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم جانسن کو پابند کیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے بریگزٹ کے لیے مدت میں توسیع کی درخواست کریں۔ یہ خط تقریباً اُس قانون سازی کی فوٹو کاپی قرار دیا گیا ہے جس میں پارلیمنٹ نے توسیع کی درخواست کرنے کے لیے وزیر اعظم کو پابند بنا دیا ہے۔ تیسرے خط میں بورس جانسن نے اس ڈیڈ لائن میں توسیع نہ کرنے کو موضوع بنایا ہے۔
بورس جانسن نے یورپی یونین کو لکھ گئے اپنے خط میں بریگزٹ میں ممکنہ توسیع کو ایک غلطی قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے مسلسل اس ممکنہ توسیع کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی انہوں نے اراکین پر اپنے حکومتی موقف کو واضح کر دیا کہ بریگزٹ کی مدت میں توسیع برطانیہ اور اس کے یورپی پارٹنر ممالک کے مفاد میں نہیں ہو گی۔
یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے بریگزٹ میں توسیع سے متعلق خط موصول ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس خط کے مندرجات کی روشنی میں یورپی یونین کے لیڈروں سے مشاورت شروع کریں گے۔ دوسری جانب برطانیہ اور یورپی یونین میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ برطانوی انخلا کی ڈیل کی توثیق اب بھی ممکن ہے لیکن اکتیس اکتوبر کا دن بھی بہت قریب آ چکا ہے۔
یہ امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ اب تک اٹھائیس رکنی یورپی یونین کی رکن باقی ستائیس ریاستیں بورس جانسن کی توسیع کی درخواست کو مسترد کر دیں لیکن یونین کے حکام کے مطابق توسیع کا فیصلہ فوری طور پر سامنے آنا مشکل ہے۔ اس فیصلے کے لیے یورپی یونین کی ایک ہنگامی سمٹ درکار ہو گی، جو امکاناً اگلے ویک اینڈ پر ہی منعقد ہو سکتی ہے۔ یونین کی رکن ریاستوں کے نمائندے آج اتوار کے روز برطانوی وزیراعظم کی طرف سے لکھے گئے خطوط پر غور کر رہے ہیں۔
ع ح ⁄ م م (اے پی، روئٹرز)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔