بریگزٹ ڈیڈ لائن میں ممکنہ توسیع کے بعد کیا کیا کچھ ممکن ہے؟
25 اکتوبر 2019
برطانیہ میں اس وقت لندن حکومت کی طرف سے کی گئی درخواست کے بعد یورپی یونین کے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں مزید ایک بار توسیع سے متعلق فیصلے کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ توسیع ہو بھی گئی تو ہو گا کیا؟
اشتہار
''براہِ مہربانی یہ وقت ضائع نہ کیجیے گا،‘‘ یہ بات یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس سال اپریل میں اس وقت کہی تھی، جب مارچ کے آخر میں پوری ہونے والی بریگزٹ کی گزشتہ ڈیڈ لائن میں یونین نے سات ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی تھی۔
کافی زیادہ امکان ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کے لیے اس مدت میں، جو 31 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے، مزید ایک بار توسیع کر دے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ لندن کو برسلز نے مزید ایک بار اضافی مہلت دے بھی دی، تو برطانیہ خود کو ملنے والی اس آخری رعایت کو استعمال کیسے کرے گا؟ اس سوال کے کئی ممکنہ جوابات ہیں۔
فیصلہ آج متوقع
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن یہ دیکھنے کے انتظار میں ہیں کہ آیا یورپی یونین کے باقی 27 ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کے مابین اس بارے میں اتفاق رائے ہو جاتا ہے کہ بریگزٹ کے عمل کی تکمیل کے لیے مقرر کردہ موجودہ مدت کو، جو آج سے چھ روز بعد ختم ہو رہی ہے، بڑھا دیا جائے۔ اس بارے میں پہلے فیصلہ گزشتہ بدھ یعنی تیئیس اکتوبر کو متوقع تھا لیکن اب یہ فیصلہ آج جمعہ پچیس اکتوبر کو کیے جانے کا امکان ہے۔
جانس نے یورپی یونین سے توسیع کی یہ درخواست گزشتہ ویک اینڈ پر کی تھی اور انہوں نے اس مقصد کے لیے یونین کو لکھے گئے خط پر دستخط بھی نہیں کیے تھے۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یونین کو اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک ایسا خط بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یونین اس توسیع کی منظوری نہ دے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بورس جانسن کی خواہش تھی کہ برطانیہ بہرصورت اکتوبر کے آخر تک یورپی یونین سے نکل جائے۔ انہیں توسیع کی درخواست لندن میں پارلیمانی ایوان زیریں کی طرف سے منظور کردہ ایک ایسے قانون کی وجہ سے کرنا پڑی تھی، جس پر عمل درآمد کا ہاؤس آف کامنز یا دارالعوام نے انہیں پابند بنا دیا تھا۔
تین ماہ کی توسیع کی درخواست
برطانیہ کی خواہش ہے کہ بریگزٹ کی موجودہ مدت میں جنوری 2020ء کے آخر تک یعنی تین ماہ کی توسیع کر دی جائے اور اس میں یہ امکان بھی رکھا جائے کہ اگر دارالعوام کے ارکان اس مدت کی تکمیل سے قبل ہی بریگزٹ کے عمل پر متفق ہو گئے، تو برطانیہ اگلے برس جنوری کے اختتام سے پہلے بھی یونین سے نکل سکتا ہو۔
لیکن آیا بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع کی جائے گی، اور اگر کی جائے گی تو کتنے عرصے کے لیے، یہ فیصلہ یورپی یونین کے رہنماؤں کو کرنا ہے۔ اس وقت تک بریگزٹ کے حوالے سے یہ امکانات موجود ہیں:
1۔ بورس جا نسن کے لیے بریگزٹ کی موجودہ ڈیل کی پارلیمانی منظوری کے لیے تیز ترین راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی جائے، برطانیہ میں کوئی نئے عام انتخابات نہ کرائے جائیں اور ٹوری پارٹی کی حکومت اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے ساتھ ملا کر وہ ڈیل منظور کروانے کی کوشش کرے، جو جانسن نے یونین کے ساتھ کی ہے۔ لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ لندن میں پارلیمان اس ڈیل کی منظوری سے انکار کر دے۔
2۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع ہو جائے اور وزیر اعظم بورس جانسن ملک میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں اور یہ الیکشن جانسن کی ٹوری پارٹی جیت بھی جائے۔ برطانیہ میں حکمران جماعت کے کئی ارکان نئے عام انتخابات کی تجویز کے خلاف بھی ہیں لیکن جانسن کہہ چکے ہیں کہ ان کی خواہش ہو گی کہ نئے الیکشن کرا دیے جائیں۔ اگر ٹوری پارٹی کو اکثریت مل گئی تو پھر وہ جانسن کی یونین کے ساتھ ڈیل کو نئی پارلیمان میں آسانی سے منظور کروا سکے گی۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
3۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع ہو جائے، ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرا دیے جائیں اور ٹوری پارٹی یہ لیکشن ہار جائے۔ ایسا ہوا تو لندن میں حکومت بھی تبدیل ہو جائے گی۔ پھر لیبر پارٹی چند چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تو بنا لے گی لیکن بریگزٹ کی تکمیل کے لیے اس حکومت کو تین ماہ کے بجائے کہیں طویل مدت درکار ہو گی۔
لیبر پارٹی کا ریفرنڈم کا ارادہ
اسی امکان کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزیر اعظم بنے، تو وہ یونین کے ساتھ ایک نئی، زیادہ بہتر ڈیل طے کریں گے اور پھر اس کی منظوری کے لیے ملک میں ایک ریفرنڈم کرائیں گے، جس میں عوام کو یہ رائے دینے کے لیے کہا جائے گا کہ برطانیہ اس آئندہ ڈیل پر عمل کرتے ہوئے یونین سے نکل جائے یا پھر اب تک کی طرح مستقبل میں بھی یورپی یونین کا رکن ہی رہے۔
یہ امکانی صورت حال اپنے دورانیے کے حوالے سے بہت طویل ہو گی کیونکہ اس عمل کا ہر حصہ کئی کئی ماہ پر محیط ہو گا۔ تاہم یونین کے لیے یہ طویل عرصہ اس وجہ سے قابل قبول ہو گا کہ اس دوران یہ امکان اپنی جگہ باقی رہے گا کہ برطانوی عوام مستقبل میں شاید آئندہ بھی یونین کا حصہ رہنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔
مارک ہالم (م م / ع ا)
بڑے شہروں میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان
آسٹریلیا سمیت کئی دوسرے ممالک میں جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ شمالی امریکا اور ایشیائی شہروں میں بھی ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی محسوس کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Isakovic
آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی
مختلف آسٹریلوی شہروں میں گزشتہ پندرہ برسوں کے بعد رواں موسم خزاں میں مکانات کی خرید و فروخت میں حیران کن کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر سڈنی نمایاں ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں کے عروج کے دور میں سڈنی میں مکانات کی قیمتیں دوگنا ہو گئی تھیں لیکن اب ان میں دس فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کی ایک وجہ رہن رکھنے کے سخت ضوابط بھی ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/A. Drapkin
بنکاک کی مشترکہ ملکیت پر چھائی برف
بنکاک میں مشترکہ ملکیت کی حامل ریئل اسٹیٹ میں چینی سرمایہ کار خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے قیمتوں میں پانچ سے دس فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔ اب اس صورت حال میں کمی کے بعد چالیس ہزار اپارٹمنٹس کا کوئی خریدار نہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ بعض ایشیائی شہروں میں رہائشی عمارتوں کے لیے جگہ کم ہونے لگی ہے۔
تصویر: imago/Arcaid Images/R. Powers
لندن میں جائیداد کی خرید و فرخت پر بریگزٹ کے سائے
برطانوی دارالحکومت لندن کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں چینی، روسی اور مشرق وسطیٰ کے امراء بڑی رغبت سے سرمایہ کاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اب بریگزٹ کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ تقریباً پانچ سو نئے تعمیر شدہ اپارٹمنٹس اور مکانات خالی پڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arcaid/R. Bryant
چین میں قیمتوں کی کمی، سرمایہ کاروں کی دہائی
چین کے کئی شہروں میں جائیداد کے کاروبار میں مندی جاری ہے۔ قیمتوں میں کمی کا یہ مخصوص رجحان گزشتہ برس سے جاری ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی سمیت تیئس شہروں میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں گراوٹ پیدا ہو چکی ہے۔ کئی چینی صوبوں نے رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے کئی منصوبے منسوخ کر دیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/imaginechina/D. Dong
وینکُوور کے غبارے سے بھی ہوا نکل رہی ہے
گزشتہ پندرہ برسوں میں کینیڈا کے شہر وینکُوور میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو فروغ حاصل رہا۔ مکانات کی قیمتوں میں 337 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رائل بینک آف کینیڈا کے مطابق اب یہ شہر اپنی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدید صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: imago/All Canada Photos
استنبول کی صورت حال بھی گھمبیر
گزشتہ برس ترک کرنسی لیرا کی مجموعی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں چالیس فیصد کی کمی ہوئی۔ شرح سود میں چوبیس فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس باعث گروی رکھنے والی جائیداد کی درخواستوں میں سے اسی فیصد کو مسترد کر دیا گیا۔ دوسری جانب غیر ملکی کرنسیوں کے لیے استنبول میں مکانات کی قیمتیں بظاہر کم محسوس ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters
سنگاپور میں بھی جائیداد کے کاروبار میں کمی کا رجحان
ریئل اسٹیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں سن 2019 کے دوران مکانات و اپارٹمنٹس کی قیمتوں میں پانچ فیصد سے زائد کمی کی توقع ہے۔ سنگاپور میں رہائشی اپارٹمنٹس کے حوالے سے نئے تجرباتی ڈیزائن بھی متعارف کرائے گئے ہیں تا کہ خریداروں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
تصویر: Imago/imagebroker
ہانگ کانگ میں حالات بہتر ہوئے ہیں
ہانگ کانگ میں پراپرٹی کی مارکیٹ میں چند برس قبل تیزی ضرور پیدا ہوئی تھی لیکن اب اس کی رفتار مدہم پڑ چکی ہے۔ خصوصی اختیارات کے حامل چینی علاقے کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں گزشتہ نو برسوں سے اعتدال پایا جاتا ہے۔ گرشتہ موسم گرما سے اب تک پراپرٹی کی قیمتوں میں نو فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔