1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

بریگزٹ کے پانچ برس مکمل

31 جنوری 2025

پانچ برس قبل آج کے دن برطانوی پارلیمان کا منظر عجیب تھا۔ ایک طرف برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر خوشی منا رہی تھی جبکہ دوسری طرف ’بریگزٹ‘ یعنی برطانیہ کے اس بلاک سے الگ ہونے پر ایک غم وغصہ نمایاں تھا۔

Briten haben mehr Vertrauen in EU als in Regierung
تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

31 جنوری سن 2020 کو رات 11 بجے لندن کے وقت کے مطابق جب برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز میں نصف شب تھی، برطانیہ نے تقریباً پانچ دہائیوں کے بعد یورپی یونین کو باضابطہ طور پر چھوڑ دیا تھا۔ یہ رکنیت برطانیہ اور 27 دیگر یورپی ممالک کے درمیان آزاد تجارت اور آزاد نقل و حرکت کی ضامن تھی۔

بریگزٹ کے حامیوں کے لیے، برطانیہ یوں دوبارہ ''خودمختار ملک‘‘ بن گیا، جو اپنے مستقبل کا تعین خود سے کر سکتا تھا جبکہ مخالفین کے نزدیک یہ ایک الگ تھلگ اور کمزور ہو چکے ایک ملک کا آغاز تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بریگزٹ کے حوالے سے برطانوی عوام کے درمیان تقسیم  بھی بالکل واضح تھی، جو ایک نامعلوم سمت میں قدم بڑھا رہی تھی۔ پانچ سال بعد بھی عوام اور کاروباری ادارے معاشی، سماجی اور ثقافتی جھٹکوں سے نبرد آزما ہیں۔

دو ہزار سولہ میں ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے بریگزٹ کے حق میں فیصلہ دیا تھاتصویر: Daniel Kalker/picture alliance

سیاسی تجزیہ کار اور یو کے ان اے چینجنگ یورپ نامی تھنک ٹینک کے سربراہ آنند میننکا کہنا ہے، '' اس کا اثر واقعی بہت گہرا رہا ہے۔ اس نے ہماری معیشت کو بدل دیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہماری سیاست بھی بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بریگزٹ کے گرد قومی سطح پر ایک نئی تقسیم پیدا ہوئی ہے، جو انتخابی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔‘‘

ایک فیصلہ جس نے قوم کو تقسیم کر دیا

برطانیہ، جو اپنی تاریخی اہمیت کا بھرپور احساس رکھتا ہے، یورپی یونین کا ہمیشہ ایک غیر مطمئن رکن رہا۔ جون سن 2016 میں اس نے ایک ریفرنڈم کرایا کہ آیا برطانیہ کو یونین میں رہنا چاہیے یا نکل جانا چاہیے۔ دہائیوں پر محیط صنعتی زوال، پبلک بجٹ میں کٹوتیاں اور بڑھتی ہوئی امیگریشن نے اس تصور کو فروغ دیا کہ بریگزٹ کے ذریعے برطانیہ اپنی سرحدوں، قوانین اور معیشت پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔

لیکن 52 فیصد بمقابلہ 48 فیصد کے تناسب سے 'بریگزٹ‘‘ کے حق میں آنے والے نتائج نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ نہ تو اس وقت کی یورپی یونین کا حصہ رہنے کی حامی حکمران قدامت پسند حکومت کے پاس نہ تو کوئی متبادل منصوبہ موجود تھا اور نہ ہی بریگزٹ کے حاموں نے علیحدگی کے پیچیدہ معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دے رکھی تھی۔

تصویر: Susannah Ireland/REUTERS

اس ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین سے علیحدگی کی شرائط پر کئی سال تک تنازعات جاری رہے، جس نے برطانوی پارلیمان کو شدید متاثر کیا اور اسی تناظر میں وزیراعظم تھریسا مے نے سن 2019 میں استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ بورس جانسن نے لی، جنہوں نے بریگزٹ کا عمل ''مکمل‘‘ کرنے کا عزم ظاہرکیا۔

برطانوی معیشت کو دھچکا

برطانیہ نے یورپی یونین کے ساتھ اپنے مستقبل کے اقتصادی تعلقات پر کسی معاہدے کے بغیر علیحدگی اختیار کی، حالانکہ یورپی یونین برطانوی تجارت کا نصف حصہ بنتی تھی۔  اس کے بعد  11 ماہ تک علیحدگی کی شرائط پر سخت مذاکرات جاری رہے، جو بالآخر دسمبرسن  2020 کی کرسمس کی شام ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہوئے۔

یہ معاہدہ برطانیہ کو یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ اور کسٹمز یونین سے باہر لے آیا۔ اس کا مطلب تھا کہ تجارتی سامان پر کوئی نیا ٹیکس یا کوٹا نہیں ہوگا، لیکن کاروباری اداروں کو اضافی کاغذی کارروائی، اخراجات اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

غیر متوقع نتائج

کئی طریقوں سے بریگزٹ کے اثرات ویسے نہیں رہے، جیسا کہ اس کے حامیوں یا مخالفین نے سوچے تھے۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا اور روسی یوکرینی جنگ نے برطانیہ میں مزید اقتصادی مسائل پیدا کر دیے، جس کی وجہ سے بریگزٹ کے اصل اثرات کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا۔

بریگزٹ کے جرمنی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

02:57

This browser does not support the video element.

امیگریشن کے معاملے میں، اس کے اثرات بالکل الٹ رہے۔ یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دینے کی ایک بڑی وجہ امیگریشن کم کرنا تھی لیکن آج برطانیہ میں امیگریشن کی سطح بریگزٹ سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے کیونکہ عالمی سطح پر ورک ویزوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

کیا برطانیہ اور یورپی یونین پھر قریب آئیں گے؟

سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ برطانوی عوام کی ایک بڑی تعداد اب بریگزٹ کو ایک غلطی سمجھتی ہے لیکن برطانیہ کا یورپی یونین میں دوبارہ شمولیت کا امکان کم ہے۔ حالیہ عرصے میں اس موضوع پر شدید اختلافات اور تقسیم کے سبب، زیادہ تر لوگ اس بحث کو دوبارہ زندہ کرنا نہیں چاہتے۔

جولائی سن 2024 میں منتخب ہونے والے لیبر پارٹی کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نےیورپی یونین کے ساتھ تعلقات ''از سر نو ترتیب‘‘ دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن انہوں نے واضح کیا ہے کہ برطانیہ دوبارہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین یا سنگل مارکیٹ میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ صرف آرٹسٹوں کے لیے سفر کو آسان بنانے، پیشہ وارانہ قابلیتوں کے اعتراف اور سکیورٹی تعاون جیسے محدود شعبوں میں بہتری لانے کے خواہش مند ہیں۔

یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کی بدلی ہوئی سفارتی زبان کو خوش آئند قرار دیا ہے  لیکن یورپی یونین خود اندرونی طور پر بڑھتی ہوئے عوامی بے چینی اور قوم پرستی کے رجحانات سے نمٹ رہی ہے۔ اس لیے برطانیہ اب یورپی یونین کے لیے کوئی اولین ترجیح نہیں رہا۔

ع ت، ع ب (اے پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں