بریگزٹ کے باعث سکاٹ لینڈ کی آزادی کی حمایت میں ریکارڈ اضافہ
27 اپریل 2019
برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج کی وجہ سے سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے ممکنہ آزادی کی حمایت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق اس وقت سکاٹ لینڈ کے انچاس فیصد باشندے برطانیہ سے آزادی کے حق میں ہیں۔
اشتہار
سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا سے ہفتہ ستائیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے اس صوبے کی باقی ماندہ برطانیہ عظمیٰ سے ممکنہ آزادی کی سیاسی سوچ یوں تو کئی عشرے پرانی ہے لیکن اس سوچ اور اس کے لیے سیاسی حمایت میں گزشتہ چار برسوں میں اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جتنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ کا یورپی یونین سے آئندہ اخراج ہے، جسے مختصراﹰ بریگزٹ بھی کہتے ہیں۔
سکاٹش عوام میں لندن سے آزادی کی اس سوچ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے سکاٹش رائے دہندگان میں بڑی تعداد ان شہریوں کی ہے، جو چاہتے ہیں کہ انہیں مستقبل میں بھی یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہیے۔
YouGov نامی سروے کے مطابق جون 2018ء میں سکاٹ لینڈ کے تقریباﹰ 45 فیصد باشندے یہ چاہتے تھے کہ اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے آزادی حاصل کر لینا چاہیے۔ اب لیکن نو ماہ بعد یہی شرح بڑھ کر 49 فیصد ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے آزادی کے حامی ووٹروں کی یہ وہ زیادہ سے زیادہ شرح فیصد ہے، جو آج تک ریکارڈ کی گئی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ اعداد و شمار سکاٹ لینڈ کی آزادی کی حامی سیاسی جماعت سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی یا ایس این پی کے موسم بہار کے کنوینشن کے موقع پر سامنے آئے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کی حکومتی سربراہ نکولا سٹرجن نے ابھی حال ہی میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کی حکومت علاقائی پارلیمان میں عنقریب ہی ایک ایسا مسودہ قانون پیش کرے گی، جسے اس سال کے اواخر تک منظور کر لیا جائے گا۔
پھر اس نئے قانون کے تحت سکاٹ لینڈ میں 2021ء تک ایک ایسا نیا اور مجموعی طور پر دوسرا ریفرنڈم کرایا جائے گا، جس میں سکاٹش ووٹر یہ فیصلہ دے سکیں گے کہ آیا سکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک خود مختار ملک بن جانا چاہیے۔
سکاٹ لینڈ کی ممکنہ آزادی سے متعلق گزشتہ اور اپنی نوعیت کا اب تک کا واحد ریفرنڈم 2014ء میں کرایا گیا تھا۔ اس میں 45 فیصد کے مقابلے میں 55 فیصد کی اکثریت سے سکاٹش ووٹروں نے یہ رائے دی تھی کہ سکاٹ لینڈ کو برطانیہ کا حصہ ہی رہنا چاہیے۔
ایسا سکاٹش ریفرنڈم کے دو سال بعد 2016ء میں ہوا تھا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے اپنے اخراج کا فیصلہ کیا تھا، جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ برطانیہ میں عملی طور پر ابھی تک اس بارے میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے کہ آیا برطانیہ یورپی یونین سے واقعی نکل جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو کب تک اور کن حالات میں ممکن ہو سکے گا۔
م م / ع ح / روئٹرز
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔