بریگزٹ کے خلاف لندن میں ہزارہا شہریوں کا احتجاجی مظاہرہ
مقبول ملک اے پی
9 ستمبر 2017
برطانوی دارالحکومت میں ہزارہا شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ انخلاء کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ’یورپ کے لیے عوامی مارچ‘ کے نام سے اس احتجاج کے دوران شرکاء نے وسطی لندن میں ملکی پارلیمان تک مارچ کیا۔
اشتہار
لندن سے ہفتہ نو ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق آج کی اس بڑی احتجاجی ریلی میں شریک مظاہرین ملکی حکومت کے ان منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جن کے مطابق برطانیہ 2019ء تک یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اس حکومتی فیصلے کی بنیاد برطانیہ میں گزشتہ برس کرایا جانے والا ایک عوامی ریفرنڈم بنا تھا۔
منتطمین کے مطابق اس مارچ کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی عوام کو متحد ہو کر دوبارہ یہ سوچنے پر مجبور کر دیا جائے کہ قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کی قیادت میں کیا جانے والا یہ فیصلہ منسوخ کیا جانا چاہیے کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے۔
کووینٹری کے طلبہ اور محققین بریگزٹ سے خوش نہیں
04:18
اس مارچ کے دوران، جس میں ہزارہا شہریوں نے شرکت کی، شرکاء میں سے بہت سے یورپی یونین کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے جبکہ کئی دیگر نے یا تو اپنے چہرے یورپی یونین کے پرچم کے رنگوں کے ساتھ پینٹ کر رکھے تھے یا پھر وہ ایسے بینر اٹھائے ہوئے تھے، جن پر لکھا تھا، ’’یونین سے نکلنے کے بجائے بریگزٹ سے نکلو۔‘‘
اس موقع پر لندن میں ملکی پارلیمان کے ایک لبرل ڈیموکریٹ رکن ایڈ ڈیوی نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ لندن حکومت کس طرح یورپی یونین کے نمائندوں کے سامنے برطانیہ کے موقف کی نمائندگی کر رہی ہے۔
ایڈ ڈیوی نے کہا، ’’برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ سے متعلق اپنی بات چیت شروع کر چکا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات اب غصے کی حد تک نکل کر شرمندگی کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے اب برطانوی حکمرانوں کو بھی شرمندہ ہونا چاہیے، جو پورے برطانیہ کو شرمندہ کروا رہے ہیں۔‘‘
اس مظاہرے میں شامل بہت سے شرکاء اور کئی دیگر مقررین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ برطانوی عوام کو ایک بار پھر یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ جب بریگزٹ مذاکرات مکمل ہو جائیں، تو وہ حتمی طور پر منظوری دے سکیں کہ آیا برطانیہ کو واقعی یورپی یونین کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔
برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے نام سے وہ عوامی رائے دہی جون 2016ء میں کرائی گئی تھی، جس میں برٹش ووٹروں نے معمولی اکثریت سے یہ حمایت کر دی تھی کہ ان کا ملک اب تک 28 رکنی یورپی یونین سے نکل جائے۔ لندن حکومت برسلز کے ساتھ بریگزٹ سے متعلق عملی مذاکرات کا آغاز کر چکی ہے لیکن یہ سلسلہ انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اسی دوران خود لندن حکومت کی خواہش ہے کہ برطانیہ 29 مارچ 2019ء تک یورپی یونین سے نکل جائے۔ لیکن اس موضوع پر بات چیت میں التواء اس وجہ سے بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس بارے میں لندن اور برسلز کے مابین شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ بریگزٹ کے مکمل ہونے سے قبل برطانیہ کو یونین کو کتنی مالی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔
اس کے علاوہ برطانیہ اور یورپی یونین کے بارے میں اس بارے میں ممکنہ بات چت بھی ابھی شروع نہیں ہوئی کہ برسلز لندن کے ساتھ اپنے مستقبل کے تجارتی روابط کے سلسلے میں جو معاہدہ کرے گا، اس کی نوعیت کیا ہو گی۔
لندن میں برطانوی پارلیمان کے دارالعوام کہلانے والے ایوان زیریں میں پیر 11 ستمبر کے روز اس ’تنسیخی بل‘ پر رائے شماری متوقع ہے، جس کا مقصد یورپی یونین کے کئی قوانین کو دوبارہ برطانوی قوانین کا حصہ بنانا ہے۔ اب تک یورپی قوانین کہلانے والے یہ ضابطے اس وقت دوبارہ برطانوی قوانین کا حصہ بنیں گے، جب برطانیہ کی یونین سے علیحدگی عملاﹰ مکمل ہو جائے گی۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔