بریگزٹ: یورپی شہریوں سے متعلق برٹش ارادے: دستاویز لیک ہو گئی
مقبول ملک اے ایف پی
6 ستمبر 2017
برطانوی حکومت کی تیار کردہ ایک ایسی دستاویز لیک ہو گئی ہے، جس میں بریگزٹ کے بعد اس ملک میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے کارکنوں اور شہریوں کی آمد کو محدود کر دینے کے لندن حکومت کے ارادوں کی تفصیلات شامل ہیں۔
اشتہار
لندن سے بدھ چھ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ منگل پانچ ستمبر کو رات گئے برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی اس دستاویز کی تفصیلات کے مطابق لندن حکومت چاہتی ہے کہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کی ریاستوں کے ’کم ہنر مند‘ شہریوں اور ’یورپی باشندوں کے اہل خانہ‘ کی برطانیہ آمد کو محدود بنا دیا جائے۔
بنیادی طور پر یہ دستاویز 82 صفحات پر مشتمل ہے، جو برطانوی وزارت داخلہ یا ہوم آفس کی تیار کردہ وہ تجاویز ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج کے بعد اس ملک میں یونین کے شہریوں اور تارکین وطن کی آمد کے بہتر انتظامات کے لیے کیا کچھ کیا جانا چاہیے۔
اے ایف پی کے مطابق ان تجاویز پر عمل درآمد کا براہ راست مطلب یہ ہو گا کہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین سے آنے والے عام شہریوں کی آزادانہ نقل وحرکت اور روزگار کی منڈی تک رسائی کے بنیادی یورپی ضابطے پر لندن کی طرف سے عمل درآمد ختم کر دیا جائے گا۔
اس دستاویز میں کہا گیا ہے، ’’سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یورپی تارکین وطن کی برطانیہ میں آمد مجموعی طور پر خود برطانیہ کے لیے بھی سود مند رہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں آنے والے یورپی شہریوں کو بھی اس کا فائدہ ہو، لیکن ساتھ ہی ان کی آمد برطانیہ میں رہنے والے انسانوں کے لیے بھی فائدہ مند ہونا چاہیے۔‘‘
ان تجاویز کے مطابق مستقبل میں جب برطانیہ یونین کا رکن ملک نہیں ہو گا، اور بریگزٹ کا عمل مکمل ہو جائے گا، تو حکومت یورپی شہریوں کے لیے ایک دوہرا امیگریشن نظام اپنانا چاہے گی۔ اس مجوزہ نظام کے تحت جو یورپی شہری طویل المدتی بنیادوں پر برطانیہ میں قیام کرنا چاہیں گے، انہیں اپنے لیے دو سالہ رہائشی پرمٹ کے حصول کی درخواست دینا ہو گی۔
اس کے برعکس جو بہت ہنر مند اور باصلاحیت پیشہ ور یورپی کارکن برطانیہ میں قیام کے خواہش مند ہوں گے، انہیں یہ سہولت حاصل ہو گی کہ وہ اپنے لیے برطانیہ میں قیام کے پانچ سالہ رہائشی اجازت نامے کے لیے درخواست دے سکیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ہاتھ لگ جانے والی اس بہت طویل برطانوی حکومتی دستاویز کو ملکی وزارت داخلہ نے ’حساس دستاویز‘ قرار دے رکھا تھا اور اس میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں کارکنوں کے طور پر یورپی یونین کے رکن ملکوں کے شہریوں کے لیے ان کے ’اہل خانہ‘ کی قانونی تعریف بھی زیادہ سخت بنا دی جائے گی، تاکہ ارکان خاندان کے طور پر بھی یورپی باشندوں کی ملک میں آمد کو محدود بنایا جا سکے۔
بریگزٹ کے بعد آزاد نقل و حرکت کا مستقبل کیا ہو گا؟
02:25
ان تجاویز کے مطابق جن افراد کو آئندہ یورپی کارکنوں کے اہل خانہ کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، ان میں شریک حیات، اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے اور ایسے بالغ رشتے دار شامل ہوں گے، جن کی کفالت متعلقہ یورپی شہری کرتا ہو۔
یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ یورپی یونین کے شہریوں کے لیے بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے سفر کے وقت اپنے ساتھ اپنا پاسپورٹ رکھنا بھی لازمی ہو گا۔ اب تک یونین کے شہری صرف اپنا قومی شناختی کارڈ دکھا کر ہی برطانیہ میں داخل ہو سکتے ہیں، ایک ایسی سہولت جو یونین کے شینگن زون کے ہر شہری کو ہر رکن ملک میں حاصل ہے۔
لندن حکومت کے اب تک کے نظام الاوقات کے مطابق برطانیہ 29 مارچ 2019ء کے روز تک یورپی یونین سے نکل جائے گا۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔