’بس پیٹ میں درد ہے‘ طالبان نے جرمن یرغمالی کو رہا کر دیا
29 مئی 2015جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کی ایک ترجمان نے برلن میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’شٹائن مائر نے افغانستان میں اپریل میں اغوا ہونے والے ایک جرمن امدادی کارکُن کی رہائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ شب رہا ہونے والا یہ جرمن شہری خیریت سے ہے اور شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں قائم جرمن قونصل خانے کی تحویل میں ہے‘‘۔
جرمن وزیر خارجہ کی ترجمان نے تاہم جرمن باشندے کی رہائی کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا جرمن امدادی کارکُن کی رہائی تاوان کے عوض عمل میں آئی ہے، وزیر خارجہ کی خاتون ترجمان نے معمول کے جرمن موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’جرمن حکومت کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آتی‘‘، تاہم انہوں نے کہا برلن حکومت افغان حکومت اور افغان سکیورٹی حکام کے کابل اور قندوز میں، جہاں جرمن ایڈ ورکر کو رہائی کے بعد لے جایا گیا ہے، تعاون کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتی ہے۔
اُدھر بین الاقوامی تعاون کے جرمن امدادی ادارے GIZ نے بھی اپنے کار کُن کی رہائی کی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ قبل ازیں افغان حکام نے طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے والے اس جرمن شہری کی رہائی کی اطلاع دی تھی اور کہا تھا کہ وہ بہت اچھی جسمانی حالت میں ہے اور صرف پیٹ درد کی شکایت کر رہا تھا۔ بین الاقوامی تعاون کی جرمن تنظیم ’جی آئی زیڈ‘ کے 45 سالہ اس ملازم کو تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل قندوز سے ٹیکسی میں سفر کرنے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد اُسے چار درہ کے ہوائی اڈے سے مزار شریف پہنچایا گیا، جہاں اب وہ جرمن افواج کی تحویل میں ہے۔
دریں اثناء افغان حکام نے کہا ہے کہ جرمن ایڈ ورکر کو سکیورٹی فورسز نے رہائی دلوائی ہے۔ قندوز کے صوبائی گورنر کے ترجمان عبدالوُدود واحدی نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ’’جرمن ورکر کو جمعے کی صُبح تین بجے ایک پولیس آپریشن کے ذریعے رہا کروایا گیا‘‘۔ قندوز کے گورنر کے اس ترجمان نے تاہم پولیس آپریشن کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
اطلاعات کے مطابق جرمن وزیر خارجہ نے اس بارے میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ مئی کے اوائل میں بات چیت کی تھی۔ افغانستان میں رواں برس اغوا کے واقعات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں کابل حکومت نے مسلح دہشت گردوں کی طرف سے جنوبی افغانستان سے فروری میں اغوا کیے جانے والے 31 افغان شیعہ باشندوں میں سے 19 کو رہا کروا لیا تھا اور رپورٹوں کے مطابق ایسا قیدیوں کے تبادلے کی شکل میں ہوا تھا۔