بس گینگ ریپ کے مجرموں کے لیے سزائے موت
13 ستمبر 2013نئی دہلی کی ایک عدالت کے جج یوگیش کھنہ نے ان افراد کے وکیل کی جانب سے نرم سزا کی درخواست مسترد کر دی۔ اس فیصلے کا پتہ چلنے کے بعد عدالت کے باہر جمع لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
جنسی زیادتی کے واقعے کے حوالے سے جج یوگیش کھنہ کا کہنا تھا: ’’اس نے پورے سماج کے ضمیر کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’ایسے دَور میں جب خواتین کے خلاف تشدد پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، عدالتیں ایسے گھناؤنے جرم پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتیں۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ کے والد نے عدالت کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے عدالت میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’ہم بہت خوش ہیں۔ انصاف ہو گیا۔‘‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق لڑکی کے والد کا نام قانونی وجوہات کی بناء پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
چاروں مجرموں کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی سزاؤں پر عملدرآمد میں سالوں لگ سکتے ہیں۔ اپیل کی صورت میں یہ مقدمہ پہلے ہائی کورٹ میں اور پھر سپریم کورٹ میں جائے گا۔ ان عدالتوں نے سزاؤں کو برقرار رکھا تو حتمی فیصلہ صدر کے ہاتھ میں ہو گا جنہیں معاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
روئٹرز کے مطابق بھارت میں ہر سال اوسطاﹰ 130 افراد کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ 17 برس میں صرف تین افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا ہے۔
اس مقدمے کا سامنے کرنے والے ان چار افراد کو اجتماعی آبرو ریزی اور قتل کے الزامات ثابت ہونے پر رواں ہفتے مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔ ان افراد نے گزشتہ برس دسمبر میں دیگر دو افراد کے ساتھ مل کر ایک چلتی بس میں ایک 23 سالہ طالبہ کو بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ بعد ازاں سنگاپور کے ایک ہسپتال میں چل بسی تھی۔
چھ افراد میں سے ایک جیل میں مردہ پایا گیا تھا جب کہ ایک کو کم عمر ہونے کی وجہ سے تین سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
جنسی زیادتی کے اس واقعے کے بعد بھارت بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور خواتین کے خلاف تشدد پر قومی سطح پر بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔