بشارالاسد کی صدارت ’ریڈ لائن ہے، جو عبور نہیں کی جا سکتی‘
12 مارچ 2016جنیوا مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی فریقین میں پائے جانے والے اختلافات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ ان مذاکرات کی کامیابی کس قدر مشکل ہے۔ شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے یہ شرط بھی عائد کر دی ہے کہ ان میں صدر اسد سے متعلق کسی بھی قسم کی بحث ناقابل قبول ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر جیت جائے گی، ’’یہ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ یہ سوچا جائے کہ اپوزیشن میدان جنگ میں تو ناکام ہوئی ہے لیکن جنیوا میں اپنے لیے اقتدار یقینی بنا لے گی۔‘‘
المعلم کے مطابق حکومتی وفد ایسے کسی بھی ایجنڈے کو قبول نہیں کرے گا، جس کا تعلق صدارتی الیکشن سے ہوگا۔ دمشق میں ایک انٹرویو کےدوران ان کا کہنا تھا، ’’ہم ایسے کسی بھی شخص سے مذاکرات نہیں کریں گے، جو بشار الاسد کی صدارتی حیثیت کے بارے میں بات کرے گا۔ بشارالاسد ایک سرخ لکیر ہیں، وہ شامی عوام کی ملکیت ہیں۔‘‘
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ’’اگر کوئی صدر اسد کے متعلق سوچ رہا ہے تو اسے اس ذہن کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کے لیے نہیں آنا چاہیے۔‘‘
شامی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کا وفد اتوار کے روز جنیوا پہنچے گا اور اگر دوسری پارٹی نے شرکت نہ کہ تو وہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر واپس دمشق آ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دمشق حکومت کے نزدیک ’سیاسی تبدیلی‘ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ آئین کی جگہ نیا آئین لایا جائے گا اور موجودہ حکومت کی جگہ نئی حکومت لائی جائے گی اور یہ کہ ’دوسرا فریق اس میں ہمارا ساتھ دے گا‘۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں تمام تر توجہ ایک ایسی ’عبوری گورننگ باڈی‘ کے قیام پر مرکوز کرنا چاہتی ہیں، جس کے پاس ملک کے تمام تر انتظامی اختیارات ہوں۔ اپوزیشن پہلے ہی موجودہ حکومت میں توسیع اور اس میں شمولیت کو مسترد کر چکی ہے۔
شامی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد مرکزی اپوزیشن کونسل نے کہا ہے کہ دمشق حکومت مذاکرات کو آغاز سے پہلے ہی ناکام بنا دینا چاہتی ہے۔
اپوزیشن گروپوں کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے رکن منذر ماخوس کا ’العربیہ الحدث‘ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ بات واضح ہے کہ دمشق جنیوا مذاکرات کے تابوت میں کیل ٹھونک رہا ہے۔‘‘ ماخوس کے بقول شامی وزیر خارجہ مذاکرات کو ان کے آغاز سے پہلے ہی روک دینا چاہتے ہیں۔