بشارالاسد کی معزولی کے ایک سال بعد شام کہاں کھڑا ہے؟
8 دسمبر 2025
گزشتہ سال آٹھ دسمبر کو احمد الشرع کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام کے باغیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد اسد کے دیرینہ مضبوط اتحادی روس نے معزول صدر کو اہل خانہ سمیت دمشق سے نکال کر ماسکو پہنچا دیا۔
اسد کے ملک چھوڑنے کے بعد احمد الشرع نے شام کی عبوری حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
اچانک اقتدار میں آنے کے بعد سے الشرع نے سفارتی روابط بڑھانے کی مہم کا آغاز کیا اور ان مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے، جنہوں نے اسد کو مسترد کر دیا تھا اور کبھی الشرع کو دہشت گرد سمجھتے تھے۔
بین الاقوامی سطح پر ان کی کامیابی کا ایک نمایاں لمحہ وہ تھا، جب انہوں نومبر میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور یوں وہ 1946 میں شام کی آزادی کے بعد سے وائٹ ہاؤس داخل ہونے والے پہلے شامی صدر بنے۔
الشرع کو سفارتی کامیابیاں تو ملیں لیکن داخلی سطح پر شام اب بھی متعدد مسائل سے دوچار ہے۔ جس میں حکومت کے حامی سنی جنگجوؤں کی علوی اور دروز اقلیتوں سے مسلح لڑائی شامل ہے۔ ان جھڑپوں میں سینکڑوں اقلیتی شہری مارے گئے۔ اب دروز گروہوں نے جنوبی صوبہ السویدا میں اپنی غیر رسمی حکومت اور فوج قائم کر لی ہے۔
مارچ میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت تمام ملک میں موجود تمام مسلح دھڑوں اور نجی ملیشیاؤں کا سرکاری افواج میں انضمام ہونا تھا تاہم اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ دمشق حکومت اور ملک کے شمال مشرق پر قابض کردش قیادت میں کشیدگیاں برقرار ہیں۔
معیشت زبوں حالی کا شکار
زیادہ تر مغربی پابندیاں ختم ہو جانے کے باوجود بھی ملک کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ خلیجی ممالک نے تعمیرِ نو کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے لیکن زمینی طور پر یہ ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے۔
عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ جنگ زدہ علاقوں کی بحالی پر 216 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔
اب تک جو بحالی کا کام ہوا ہے، وہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر ہے۔ جہاں افراد اپنے گھروں اور کاروباروں کی مرمت خود کر رہے ہیں۔
دمشق کے مضافات میں کبھی پررونق یرموک فلسطینی کیمپ آج بھی ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ مختلف عسکری گروہوں کے قبضے اور پھر سرکاری فضائی حملوں کے بعد یہ کیمپ 2018 میں تقریباً مکمل طور پر خالی ہو گیا تھا۔
سب سے زیادہ تباہ شدہ علاقوں میں اب بھی سنّاٹا طاری ہے لیکن کیمپ کی مرکزی شاہراہ پر باقی بچ جانے والی مضبوط عمارتوں میں آہستہ آہستہ ٹوٹی دیواریں دوبارہ تعمیر ہو رہی ہیں۔ دکانیں کھل گئی ہیں اور خاندان اپنے گھروں میں واپس آنے لگے ہیں۔ مگر وسیع پیمانے پر تعمیرِ نو کی کوئی واضح منصوبہ بندی ابھی نظر نہیں آتی۔
امیدیں اور توقعات
یرموک فلسطینی کیمپ کے ایک مکین ماہر الحمصی اپنے نقصان شدہ گھر کی مرمت کر رہے ہیں تاکہ وہ رہائش کے قابل ہو جائے حالانکہ اس علاقے میں پانی کا کنکشن بھی موجود نہیں۔ انہوں نے کہا، ''حکومت کے خاتمے کو ایک سال گزر چکا ہے۔ میں امید کروں گا کہ وہ پرانی تباہ شدہ عمارتیں ہٹا کر ٹاورز بنائیں گے۔‘‘
ان کی ہمسایہ اتاب الحواری نے کہا، ''نئی انتظامیہ کو ایک خالی ملک وراثت میں ملا۔ بینک خالی تھے، بنیادی ڈھانچے کو لوٹا گیا، گھروں کو لوٹا گیا۔‘‘ دمشق میں کام کرنے والے ایک ڈینٹسٹ بسام دمشقی نے اسد کے سقوط کے بعد ملکی صورتحال کے بارے میں کہا، ''یقیناً بہتر ہے، کچھ حد تک آزادی ہے۔‘‘
لیکن وہ ابھی بھی موجودہ غیر مستحکم سکیورٹی صورتحال اور اس سے بھی زیادہ کمزور معیشت کےاثرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ریاست کا کام سکیورٹی قائم کرنا ہے اور جب آپ سکیورٹی قائم کریں گے تو باقی سب کچھ خود آئے گا، سکیورٹی کی صورتحال ہی سرمایہ کاروں کو آنے اور منصوبے شروع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔‘‘
ایک سابق قیدی محمد مروان کو دمشق پر باغیوں کے قبضے کے بعد رہائی نصیب ہوئی تھی۔ انہیں چھ سال تک بدنام زمانہ جیل صیدنایا میں صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شام میں اسد کے بعد کی صورت حال ''پہلے سے کافی بہتر‘‘ ہے، حالانکہ اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
تپ دق کے مریض مروان کہتے ہیں وہ وقتاً فوقتاً مزدوری کرتے ہیں، جس کی اجرت صرف 50,000 یا 60,000 شامی پاؤنڈ روزانہ ہوتی ہے، جو تقریباً 5 ڈالر کے برابر ہے۔
ادارت: شکور رحیم