1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد خونریزی بند کریں، بان کی مون

15 جنوری 2012

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے شام کے صدر بشار الاسد سے کہا ہے کہ وہ ’اپنے عوام کا قتل بند کریں‘۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں آیا ہے جب قطر کے امیر شام میں خونریزی رکوانے کے لیے عرب ملکوں کی فوج بھیجنے کی تجویز دے چکے ہیں۔

بان کی مونتصویر: picture alliance ZUMA Press

اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون لبنان میں عرب ملکوں میں ہونے والی جمہوری تبدیلیوں کے موضوع پر ایک کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج میں شام کے صدر اسد سے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ وہ تشدد اور اپنے عوام کے قتل کا سلسلہ ختم کریں۔ جبر و تشدد کا راستہ بند گلی میں جا نکلتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’تیونس سے مصر اور اس کے بعد دیگر ملکوں میں آنے والے انقلابوں کے دوران میں نے ابتدا سے ہی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے عوام کے مطالبات پر کان دھریں۔ ان میں سے بعض نے میری بات کو سنا اور اس سے فائدہ اٹھا لیا۔ بعض نے اس پر توجہ نہ دی اور اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق صدر بشار الاسد کے حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شامی حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کی کارروائیوں میں دو ہزار سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔

شام میں دس ماہ سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیںتصویر: dapd

اُدھر شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے بتایا ہے کہ صدر اسد نے گزشتہ مارچ سے ملک میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں ہونے والے جرائم میں ملوث افراد کو معافی دے دی ہے۔ اس معافی کا اطلاق ان افراد پر ہو گا، جو پر امن انداز میں مظاہرے کرتے رہے ہیں اور جنوری کے اختتام سے قبل اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کا احاطہ فوج کے منحرف اراکین پر بھی ہو گا بشرطیکہ وہ 31 جنوری سے قبل خود کو حکام کے حوالے کر دیں۔

مظاہروں کے آغاز کے بعد صدر بشار الاسد کئی بار معافی دے چکے ہیں مگر حزب اختلاف کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد اب بھی جیلوں میں قید ہیں، جہاں ممکنہ طور پر انہیں تشدد یا بدسلوکی کا سامنا ہے۔

قیدیوں کی رہائی شامی حکومت کے عرب لیگ کے ساتھ طے پانے والے اس منصوبے کا بھی حصہ ہے، جس کی دیگر شرائط میں خونریزی کا خاتمہ، فوج اور ٹینکوں کی شہری علاقوں سے واپسی اور مخالفین کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آغاز شامل ہیں۔

دریں اثناء شام کی فوج کے منحرف اراکین صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک اعلٰی فوجی کونسل قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق یہ کونسل فری سریا آرمی کے ساتھ رابطہ کاری کرے گی۔ اس کونسل کے سربراہ بریگیڈیر مصطفٰی الشیخ ہوں گے، جو حال ہی میں شامی فوج کو چھوڑ کر ترکی منتقل ہو گئے ہیں۔ حزب اختلاف کا دعوٰی ہے کہ چالیس ہزار کے قریب سنی مسلمان فوجی سرکاری فوج چھوڑ چکے ہیں۔

مظاہروں کے آغاز کے بعد صدر بشار الاسد کئی بار معافی دے چکے ہیں مگر حزب اختلاف کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد اب بھی جیلوں میں قید ہیںتصویر: dapd

ایک متعلقہ پیشرفت میں قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ شام میں ’خونریزی کو روکنے کے لیے وہاں باہر سے فوج بھیجنے کی ضرورت ہے‘۔ اس طرح وہ شام میں فوجی مداخلت کی تجویز دینے والے پہلے عرب رہنما بن گئے ہیں۔ ان کے ملک نے اس سے پہلے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے لیے باغیوں کی مدد بھی کی تھی۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں