1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد شہریوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کریں، بان کی مون

7 اگست 2011

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شام کے صدر بشار الاسد پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں شام میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش ہے۔

تصویر: AP Photo / SHAMSNN

اقوام متحدہ کے پریس آفس کے ایک بیان کے مطابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مطالبہ کیا ہے کہ بشار الاسد شہریوں کے خلاف فوج کی تعیناتی کا سلسلہ بند کریں۔

بیان میں مزید کہا گیا: ’’شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ آج (ہفتہ کو) ایک ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل (بان کی مون) نے گزشتہ دِنوں کے دوران وہاں تشدد کے واقعات اور ہلاکتوں میں اضافے پر اپنی اور بین الاقوامی برادری کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘‘

دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ احمد داوود اوغلو منگل کو شام کا دورہ کریں گے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوآن کا کہنا ہے کہ احمد اوغلو دمشق حکومت کے لیے انقرہ کا پیغام لے کر جائیں گے۔

بیرون ممالک آباد شام کے شہری بھی دمشق حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ ہیںتصویر: dapd

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی رواں برس تک شام کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا رہا ہے، تاہم اس کی جانب سے وہاں پانچ ماہ سے جاری عوامی بغاوت کو دبانے پر بشار الاسد پر کھل کر تنقید بھی کی گئی ہے۔

اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی، جب جون میں شام کے دس ہزار سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے آپریشن سے بچتے ہوئے ترکی میں داخل ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر ابھی تک ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں آباد ہیں۔

ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ شام کے وسطی شہر حما میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی نے انہیں دہلا کر رکھ دیا۔

ترک وزیر اعظم اردوآن نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا: ’’ہمارا پیغام بھرپور انداز سے (بشار الاسد کو) پہنچایا جائے گا۔’’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی اور شام کی سرحد ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر طویل ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں، اس لیے ترکی شام کے حالات کو تماشائی بن کر نہیں دیکھ سکتا۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں