بشار الاسد کی مدد ہم پر فرض ہے، حزب اللہ
11 اپریل 2014لبنان سے شام کے باغیوں کےخلاف لڑنے کے لیے جانے والوں میں ایک محمود بھی ہے۔ وہ لبنان کے ایک جنوبی علاقے بنت جبیل میں سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسے دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا ہے کہ وہ حزب اللہ کا ایک ماہر کھلاڑی ہے۔
پچاس برس سے زائد عمر کے اس سبزی فروش نے 2006ء میں اسرائیل کے خلاف لبنان کی لڑائی میں بھی حصہ لیا تھا، لیکن وہ جنگ اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
محمود حال ہی میں شام کے ایک محاذ سے لوٹا ہے جہاں اس نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے لڑنے والے باغیوں کے خلاف پچیس دِن تک لڑائی کی۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے ایک برس سے کچھ زائد عرصہ قبل اپنے فائٹروں کو بشار الاسد کا ساتھ دینے کا حکم دیا تھا۔ تب سے اس شیعہ عسکری گروہ کے ہزاروں فائٹرز شام میں باغیوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں۔ انہیں نے مختلف محاذوں پر دمشق حکومت کے لیے اہم کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔
لبنان سے لڑائی کے لیے شام جانے والوں میں ریڑھی والے، کسان، ریستورانوں کے مالکان، ماہرینِ طب اور طالب علم شام ہیں۔ وہ اس لڑائی کو سنی شدت پسند ’کافروں‘ کے خلاف ’وجود کی جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔
محمود کا کہنا ہے کہ جب اسے بلایا گیا تو وہ حاضر ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے: ’’میں نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور کافروں کو لبنان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چل نکلا۔‘‘
اس نے مزید کہا: ’’ہمارا مقصد انصاف پر مبنی ہے۔ وہ کرایے کے قاتل ہیں جن کا تعلق چیچنیا، یمن اور لیبیا سے ہے اور وہ بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف 2006ء کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر ہماری مدد کی تھی۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔‘‘
خیال رہے کہ حزب اللہ لبنان میں انتہائی اثر و رسوخ کی حامل ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اس کے نمائندے موجود ہیں جبکہ سماجی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی اس کا وسیع تر نیٹ ورک موجود ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اسے ایران کی حمایت حاصل ہے جو شام کے راستے اسے طویل عرصے سے ہتھیار فراہم کرتا رہا ہے۔