سابق امریکی صدر جارج بش (سینیئر) چورانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کے بیٹے جارج والکر بش نے ٹویٹر پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے ہیوسٹن کے گھر میں اپنی آخری سانسیں لی۔
اشتہار
جارج ہیربرٹ والکر بش 1924ء میں میساچیوسٹس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1962ء میں اس وقت ہوا، جب وہ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ہیرس کاؤنٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے۔ 1966ء میں صدر رچرڈ نکسن کی حمایت و تائید سے کانگریس کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد 1971ء میں انہیں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بنا دیا گیا۔
1970ء کی دہائی کے وسط میں وہ چین میں اپنے ملک کے سفارتی نمائندے بنائے گئے جبکہ 1976ء میں انہیں سی آئی اے کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ بش نے رونلڈ ریگن کے خلاف صدارتی امیدوار کے لیے ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کا انتخاب بھی لڑا مگر ہار گئے۔ ریگن نے بعد ازاں انہیں اپنا نائب چن لیا تھا۔
ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بش1981ء سے 1989ء تک نائب امریکی صدر تھے اور پھر چار سال یعنی 1993ء تک وہ اکتالیسویں امریکی صدر کے منصب پر فائز رہے۔
بش کے ہی دور صدارت میں سوویت یونین ٹوٹا اور اپنے انداز سفارت کاری کی وجہ سے وہ سابق روسی رہنما میخائل گورباچوف کا بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہے۔
دیوار برلن کے انہدام کے حوالے سے بھی ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ انہی کی کوششوں کی وجہ سے ٹو پلس فور معاہدہ طے پایا، جس سے مشرقی اور مغربی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا راستہ کھلا تھا۔
ان مذاکرات میں سابقہ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کے علاوہ امریکا، سابقہ سوویت یونین، برطانیہ اور فرانس شریک تھے۔
عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنا خواب جاری
گزشتہ دس برسوں میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے، بدعنوانی عروج پر ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
ذاتی گھر کا خواب
جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2 ملین بنتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بم دھماکے روز مرہ کا معمول
عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے۔ 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ درجنوں چیک پوائنٹس پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
اموات اور تباہی
عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے دارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4568 تھی۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین کی مشکلات
عراق میں صرف چالیس فیصد خواتین پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ دس سالہ بد امنی کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد تمام تر پرانے ریکارڈ توڑ چُکی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بارودی سرنگیں
لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق، 2.7 ملین سے زائد لوگ آلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
یورنیم کے تابکار عناصر
طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں کینسر اور لیوکیمیا جیسے موذی عارضوں کیں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورنیم کے تابکارعناصر ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سکیورٹی خدشات
حکومتی حمایت یافتہ مختلف قبائلی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے سن 2005ء میں 'عراق کے بیٹوں' کے نام سے ایک نیم فوجی گروپ قائم کیا لیکن کم اسلحے اور حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ القاعدہ کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرب بہار کا آغاز ؟
دسمبر 2012 ءکے بعد سے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں کے ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کو نام نہاد عرب بہار کا حصہ کہا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہتر مستقبل کی لڑائی؟
سُنی ملیشیا گروپ ’’1920ء ریولوشن بریگیڈ‘ وہ مسلح گروپ ہے، جو موجودہ حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے چیف کمانڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جھوٹی جنگ مسلط کرنے والے ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیرنو میں مدد کریں۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
10 تصاویر1 | 10
بش کا شمار ان چند مغربی رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کی حمایت کی تھی۔ بش نے سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کو ایک سچا دوست قرار دیا تھا۔ اپنے آخری دنوں میں ان کی جانب سے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔
بش نے قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے لیے پاناما کی جنگ میں امریکی فوجی بھیجے اور پاناما کے اس وقت کے صدر مانوئیل نوریگا کو 1990ء میں گرفتار کر وایا۔ اس کے بعد 1991ء میں انہوں نے عراقی صدر صدام کے خلاف بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا اور کویت کو آزادی دلانے کے لیے عراق پر چڑھائی کی۔
بش کو ایک کامیاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا لیکن وہ اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود 1992ء میں بل کلنٹن کے ہاتھوں صدارتی انتخابات ہار گئے۔ اس کی ایک وجہ انتخابی وعدے پورا نہ کرنا بھی بتائی جاتی ہے۔
بش سینیئر کی اہلیہ باربرا کا رواں برس اپریل میں ہی 92 برس کی عمر میں انتقال ہوا تھا۔ یہ دونوں تہتر برس تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور یہ کسی امریکی صدارتی جوڑے کے طویل ترین شادی شدہ زندگی ہے۔