1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بش کا دورہٴ سعودی عرب ور تیل کی قیمت پر اثرات

ہما صدف 16 مئی 2008

امریکی صدر بش اور سعودی بادشاہ شاہ عبداللّہ کی حالیہ ملاقات کا مقصد عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں حالیہ ریکارڈ اضافے کے پیشِ نظر سعودی عرب پر تیل کی پیداوار بڑھانےکے لئے دبائو ڈالنا تھا۔

امریکی صدر بش اپنے دورہٴ سعودی عرب کے دوران سعودی بادشاہ شاہ عبداللّہ کے ساتھتصویر: AP

امریکی صدر بش اور شاہ عبداللّہ کے مابین خطّے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لئے سعودی حمایت کے حصول پر بھی بات چیت ہوئی۔

رواں برس صدر بش نے سعودی عرب کے اپنے دوسرے دورے میں امریکہ میں گیس اور تیل کی بڑھتی ہوئی طلب اور قیمت میں اضافے کے پیشِ نظر تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک کی تنظیم آرگنازیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز، اوپیک، سے تیل کی برآمدات میں اضافے کی اپیل کی۔ شاہ عبداللّہ سے ملاقات کے بعد صدر بش نے کہا کہ کہ سعودی حکومت کے مطابق تیل کی پیداوار میں اضافہ صارفین کی طلب میں اضافے پر منحصر ہے۔ امریکی صدر جارج بش کے سابقہ سعودی دورے سے اب تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمت تیس ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر ایک سو اٹھائیس ڈالر ہو چکی ہے۔

امریکی صدر کی ریاض روانگی سے قبل وائٹ ہائوس نے ایک بیان میں سعودی عرب کو تیل کے ذخائر کی مناسب حفاظت مہیّا کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔ امریکہ نے توانائی کے ذرائع کا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہونے کے ناطے دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب کو پر امن جوہری پروگرام میں بھی مدد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ وائٹ ہائس کے مطابق بش کے حالیہ سعودی دورے کا مقصد دونوں ممالک کے پچھتر برس سے قائم تعلقات کو مزید بہتر کرنا ہے۔ امریکہ کے سعودی عرب میں ایک دہائی تک جاری فوجی آپریشنز سعودی حکومت کی مسلسل مخالفت کے بعد سن دو ہزار تین میں اختتام پذیر ہوئے تھے۔

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ تیل کی حفاظت Oil Security اور تعاون کے دیگر معاہدوں پر اتفاقِ رائے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور جوہری دہشتگردی کے خلاف امریکی اقدامت کی حمایت کے لئے بھی تیّار ہو گیا ہے۔ مشرقِ وسطٰی کے اپنے اس دورے مین صدر بش سعودی حکومت کو عراق کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے آمادہ کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں