بظاہر خود کو مارنے والا شخص خطرہ تھا، نیوزی لینڈ پولیس
3 اپریل 2019
نیوزی لینڈ میں پولیس کے ساتھ ہونے والے بحث و مباحثے کے دوران بظاہر خود کو ہلاک کرنے والے شخص کو معاشرے کے لیے ایک نمایاں خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ اس نے مساجد پر حملوں میں پچاس افراد کی ہلاکت کے عمل کی حمایت بھی کی تھی۔
اشتہار
نیوزی لینڈ کی پولیس نے آج بدھ کو بتایا کہ چون سالہ آرٹمنی ڈوبووسکیو کا مساجد پر حملے کرنے والے کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ڈوبووسکیو کو ٹروئے کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
پولیس کمانڈر جان پرائس کے مطابق ڈوبووسکیو کے حوالے سے پولیس اس وقت چوکنا ہوئی، جب اس نے پندرہ مارچ کے حملے کے بارے میں کچھ عجیب و غریب سی ای میلز کیں۔ ان کے بقول کچھ اطلاعات کی بنیاد پر پولیس نے اس کے تین گھروں کی تلاشی لی اور وہاں سے ملنے والے ہتھیار اور انتہائی شدت پسند مواد قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد ستائیس مارچ کے دن مقامی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے پولیس نے آرٹمنی ڈوبووسکیو کو ایک گاڑی میں سفر کرنے کے دوران روکا۔ اس کے بعد تین گھنٹوں پولیس کے ساتھ اس کی بات چیت جاری رہی۔ تاہم حکام کے بقول گاڑی تک پہنچنے سے قبل ہی اس نے خود کو چاقو سے زخمی کر لیا تھا۔ پولیس کو اس کی گاڑی سے ایک خنجر بھی ملا تھا۔
نیوزی لینڈ کی مساجد پر دہشت گردانہ حملے
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے میں انچاس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/SNPA/M. Hunter
برینٹن ٹیرنٹ پر فرد جرم عائد
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ کر کے انچاس افراد کو ہلاک کرنے والے ملزم برینٹن ٹیرنٹ کو ہفتہ سولہ مارچ کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اپنی پہلی پیشی کے وقت ملزم برینٹ قیدیوں کے سفید لباس میں ملبوس تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران خاموش کھڑا رہا۔ اُس پر قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Mitchell
برینٹن ٹیرنٹ
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والا اٹھائیس برس کا مبینہ ملزم برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ آسٹریلوی شہری ہے۔ اُس کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائنسنس بھی موجود ہے۔ اس کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے تناظر میں کہا گیا کہ وہ سفید فام نسل کی برتری کے تفاخر میں مبتلا ہے۔ اُس کو مسجد النور پر حملے کے چھتیس منٹ بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/P. Kane
مسجد النور میں اکتالیس ہلاکتیں
کرائسٹ چرچ کی مسجد النور پر ملزم نے داخل ہو نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس مسجد میں اکتالیس افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں مقامی نو مسلم شہریوں کے علاوہ کئی مسلمان ملکوں بشمول پاکستانی تارکین وطن بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/SNPA/M. Hunter
مساجد پر حملے کے بعد سکیورٹی میں اضافہ
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی پولیس نے سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ملک بھر میں عمومی طور پر اور کرائسٹ چرچ میں خاص طور پر عام لوگوں کو مساجد کے قریب پہنچنے سے روک دیا گیا۔
تصویر: Reuters
کرائسٹ چرچ کی حملے کی نشانہ بننے والی مساجد
کرائسٹ چرچ کا شہر نیوزی لینڈ کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے۔ دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بننے والی مسجد النور شہر میں واقع ہے جب کہ دوسری مسجد نواحی بستی لِن ووڈ میں واقع ہے۔ مبینہ حملہ آور مسجد النور پر حملے کے سات منٹ بعد لِن وُوڈ کی مسجد پہنچا تھا۔
نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں کی مساجد کے باہر پولیس کی تعیناتی
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کو سفید فام نسل کی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے دارالحکومت ولنگٹن، آک لینڈ، ڈونیڈن اور دوسرے شہروں کے باہر پولیس تعینات کر دی ہے۔ نیوزی لینڈ کی تقریباً ہر مسجد کے باہر پولیس چوکس ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Walter
نیوزی لینڈ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے جمعہ پندرہ مارچ کے دہشت گردانہ حملے اور ہونے والی ہلاکتوں کے تناظر میں اس دن کو اپنے ملک کا ایک سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں گن کنٹرول کے قوانین میں رد و بدل کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مقتولین کی یاد میں پھول رکھنے کا سلسلہ
کرائسٹ چرچ شہر کے شہریوں نے انچاس ہلاکتوں پر شدید رنج و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ لوگ جوق در جوق باہر نکل کر دونوں مساجد کے باہر پھول رکھنے کے علاوہ شمعیں بھی روشن کرتے دیکھے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AA/P. Adones
کرائسٹ چرچ کے مقتول نمازیوں کی غائبانہ نماز جنازہ
نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کی دو مساجد پر جمعے کی نماز کے وقت کیے گئے حملے میں ہلاک ہونے والے نمازیوں کے لیے مسلم دنیا کے کئی شہروں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس تصویر میں بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطینی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Abu Rmeleh
9 تصاویر1 | 9
کمانڈر جان پرائس کے بقول چھاپوں کے دوران ملنے والے ہتھیاروں اور مشتبہ شخص کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے پولیس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ڈوبووسکیو کمیونٹی کے لیے خطرے کا باعث تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال وہ اس خطرے کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکتے۔
ڈوبووسکیو کے والد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا بیٹا 1997ء میں روس سے نیوزی لینڈ آیا تھا۔ ان کے بقول وہ ہتھیاروں اور عسکری تاریخ میں جنون کی حد تک دلچسپی رکھتا تھا اور اس نے نازی دور کی یادگاریں بھی اکھٹی کی ہوئی تھیں،’’میرے بیٹے کو چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس نے کبھی بھی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی۔‘‘ اطلاعات کے مطابق ڈوبووسکیو ماضی میں بھی متعدد جرائم کا ارتکاب کر چکا تھا۔