بغدادی کی ہلاکت کا سبب بنے والے آپریشن کی ویڈیو جاری
31 اکتوبر 2019
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اس امریکی فوجی آپریشن کی ویڈیو اور تصاویر جاری کر دی ہیں جس میں داعش کے سربراہ البغدادی کو ہلاک کیا گیا۔ ساتھ ہی اس بارے میں مزید تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں۔
اشتہار
دہشت گرد تنظیم داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ہفتہ 26 اکتوبر کو شام کے شمالی حصے میں ایک امریکی فوجی آپریشن میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پینٹاگون نے اس فوجی آپريشن کی تصاوير اور ويڈيوز جاری کر دی ہيں۔ اس آپریشن کی نگرانی کرنے والے امريکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل کينتھ مک کينزی نے بدھ 30 اکتوبر کی شب صحافیوں کو اس آپريشن کی تفصيلات سے آگاہ کيا۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا داعش کی طرف سے 'انتقامی کارروائیوں‘ کے حوالے سے الرٹ ہے۔
پینٹاگون کی طرف سے جاری کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں امریکی کمانڈوز کو ایک کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ البغدادی اس میں چھپا ہوا تھا۔ تفصیلات کے مطابق امریکی فوجی آپریشن کے دوران جب کمانڈوز قریب پہنچے تو البغدادی اسی کمپاؤنڈ کے اندر ایک زیر زمین سرنگ میں داخل ہو گیا تھا جہاں اس کی موت ہوئی۔
جنرل مک کینزی نے صحافیوں کو بتایا کہ فوجی آپریشن کی تکمیل کے بعد اس کمپاؤنڈ کو بمباری کر کے مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تاکہ اسے بعد ازاں البغدادی کے مقبرے کے طور پر نہ استعمال کیا جا سکے۔ جنرل مک کینزی کے مطابق امریکی فوجیوں نے بغدادی کی باقيات کو ہلاکت کے چوبيس گھنٹوں کے اندر اندر سمندر بُرد کر ديا تھا۔
امريکی جنرل کے مطابق البغدادی شام کے شمال مغربی صوبہ ادلب میں موجود اس کمپاؤنڈ میں کافی وقت سے چھپا ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کُرد فورسز کی طرف سے داعش کو صوبہ ادلب سے نکال باہر کیے جانے کے بعد البغدادی کے بارے میں معلومات کا حصول ممکن ہو سکا جو اس کی ہلاکت پر منتج ہوا۔
جنرل مک کینزی کے مطابق امریکی فوجی آپریشن کے دوران البغدادی کے ساتھ دو بچے بھی مارے گئے جو بظاہر 12 برس سے کم عمر کے تھے جبکہ 11 دیگر بچوں کو اس کمپاؤنڈ سے نکالا گیا۔ اس آپریشن کے دوران کمانڈوز نے چار خواتین اور ایک اور شخص کو ہلاک کیا جس نے بظاہر خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی اور ہتھیار ڈالنے پر راضی نہیں تھا۔
امریکی جنرل کے مطابق اس آپریشن کے درمیان ایک ایسے فوجی کتے کو بھی استعمال کیا گیا جسے اس سے قبل بھی 50 سے زائد فوجی آپریشنوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ البغدادی کی طرف سے خودکش جیکٹ کے دھماکے میں خود کو ختم کرنے کے باعث یہ کُتا بھی زخمی ہوا تاہم اب یہ واپس ڈیوٹی پر آ چکا ہے۔ اس کتے کا نام میڈیا کو نہیں بتایا گیا۔
جنرک مک کینزی کے مطابق امریکی فورسز کی طرف سے ایک کامیاب آپریشن میں البغدادی کی ہلاکت کے باوجود داعش ابھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کو اپنے نئے سربراہ کے تقرر میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور اس کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا خطرہ موجود ہے جس کے لیے امریکا تیار ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔