1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایران

بقا کا خطرہ ہوا تو ایرانی جوہری نظریہ بدل جائے گا، خرازی

9 مئی 2024

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ایک مشیر کے مطابق اگر ایران کی ریاستی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو تہران کا جوہری عسکری نظریہ بھی بدل جائے گا۔ اس تازہ بیان سے ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

شہر نطنز کی جوہری تنصیب گاہ (تصویر) ایرانی جوہری پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے
شہر نطنز کی جوہری تنصیب گاہ (تصویر) ایرانی جوہری پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایران اپنی جوہری تنصیبات میں ساٹھ فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کر رہا ہےتصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

دبئی سے جمعرات نو مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی کے الفاظ میں اگر اسرائیل کی وجہ سے ایران کا وجود خطرے میں پڑ گیا، تو جوہری عسکری سطح پر ایران کا وہ نظریہ اور سوچ بھی بدل جائیں گے، جن پر تہران اب تک کاربند ہے۔

عالمی رہنماؤں کا اسرائیل اور ایران سے تحمل کا مطالبہ

تہران میں ملکی قیادت نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری یا حصول کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم کئی مغربی ممالک کی حکومتوں کا شبہ ہے کہ ایران اپنے ہاں جوہری ٹیکنالوجی کو بم بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسی پس منظر میں ایرانی جوہری پروگرام ایک ایسا دیرینہ تنازعہ ہے، جس کی وجہ سے ایران پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔

کمال خرازی نے کیا کہا؟

گزشتہ ماہ جب اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی بہت زیادہ ہو گئی تھی، ایران کے محافظین انقلاب دستوں کے ایک سینیئر کمانڈر نے بھی کہا تھا کہ اسرائیلی کے باعث لاحق خطرات تہران کے جوہری عسکری نظریے میں تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازیتصویر: Isna

اب ایران کے اسٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک نامی خبر رساں ادارے کی آج جمعرات کی ایک رپورٹ کے مطابق علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی نے کہا ہے، ''ہم نے نیوکلیئر بم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اگر ایران کے وجود کو خطرہ ہوا، تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہو گا کہ ہم اپنا جوہری عسکری نظریہ بھی بدل لیں۔‘‘

ایران پر اسرائیل کے حملے اور دھماکوں کے بعد پروازیں معطل

آیت اللہ علی خامنہ ای کے اسی مشیر نے 2022ء میں بھی کہا تھا کہ ایران تکنیکی حوالے سے ایٹم بم بنانے کی اہلیت رکھتا ہے، تاہم ابھی تک ایسے کسی بم کی تیاری کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘‘

خامنہ ای کا موقف اور اختیارات

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای وہ واحد شخصیت ہیں، جنہیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی بھی قسم کے فیصلے کا حتمی اختیار حاصل ہے۔ مگر وہ سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک ایسا فتویٰ بھی جاری کر چکے ہیں، جس کے تحت ممکنہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ایتصویر: Iranien Supreme Leader/ZUMA Wire/IMAGO

پھر 2019ء میں ایک موقع پر خامنہ ای نے اپنا یہی موقف دہراتے ہوئے کہا تھا کہ جوہری بم تیار کرنا اور ذخیرہ کرنا ''غلط ہے اور ان کا استعمال حرام ہے۔‘‘

دوسری طرف 2021ء میں ایران کے اس وقت کے انٹیلیجنس کے وزیر نے بھی کہا تھا کہ مغربی دنیا کا دباؤ ایران کو مجبوراﹰ جوہری ہتھیاروں کی طرف لے جا سکتا ہے۔

ایران اسرائیل تنازعہ: کشیدگی کون کم کرا سکتا ہے؟

اسی طرح کی سوچ کے تسلسل میں اب کمال خرازی نے بھی کہہ دیا ہے، ''صیہونی حکومت کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں ہماری (دوسروں کو خبردار کیے رکھنے کے ذریعے حملوں سے) باز رکھنے کی سوچ بھی بدل جائے گی۔‘‘ اس ایرانی اہلکار نے اپنے بیان میں اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ نام تو نہ لیا، لیکن 'صیہونی حکومت‘ کی جو اصطلاح استعمال کی، وہ ایران میں صرف اسرائیلی حکومت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ایران حملے کے بعد ’سزا سے بچ نہیں‘ پائے گا، اسرائیلی فوج

شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر مشتبہ اسرائیلی فضائی حملہ کافی ہلاکت خیز ثابت ہوا تھاتصویر: Firas Makdesi/REUTERS

ایران اور اسرائیل دیرینہ دشمن

ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے بڑے اور دیرینہ دشمن ہیں۔ لیکن دونوں کے مابین جو کشیدگی عشروں سے ''شیڈو جنگ‘‘ کی صورت میں دیکھنے میں آتی تھی، وہ گزشتہ ماہ اپریل میں اس وقت ایک کھلا تصادم بن گئی تھی، جب شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر مشتبہ لیکن ہلاکت خیز اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل کی طرف تقریباﹰ 300 تک ڈرونز بھیجے اور میزائل فائر کیے تھے۔ پھر اس عسکری کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر حملہ کیا تھا۔

کیا ایران اور اسرائیل ہمیشہ سے دشمن رہے ہیں؟

ایران اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو 60 فیصد کی شرح تک افزودہ بنا رہا ہے جبکہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کے لیے یورینیم کو قریب 90 فیصد تک افزودہ کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کی سرکاری طور پر جمع کردہ تکنیکی معلومات کے مطابق ایران کے پاس موجودہ جوہری مادوں کو اگر مزید افزودہ بنایا جائے تو وہ دو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ثابت ہو سکتے ہیں۔

م م / ک م، ر ب (روئٹرز، اے پی)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار

03:15

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں