1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ واچ: ’پريمی‘ آخر کہاں جائيں

24 جنوری 2012

گزشتہ دنوں تفريحی مقامات پر موجود نوجوان جوڑوں کی ملاقاتوں کو زير بحث لانے، ان سے تفتیش کرنے اور ان سے نکاح نامہ دکھانے کا مطالبہ کرنے پر ايک پاکستانی نجی ٹيلی وژن چينل اور متعلقہ ميزبان سخت تنقيد کا شکار ہیں۔

تصویر: Fotolia/Mark Poprocki

پاکستان ميں گزشتہ دنوں سوشل ميڈيا پر صرف ايک ہی موضوع زير بحث رہا کہ آيا ميڈيا کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی نجی زندگی ميں دخل اندازی کرے۔ يہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب ايک نجی ٹيلی وژن چينل پر ايک پروگرام نشر کيا گيا جس ميں اس کی ميزبان مايا خان نے کيمرہ ٹيم کے ہمراہ کراچی کے ايک پارک کا دورہ کيا اور وہاں بيٹھے جوڑوں سے نکاح نامہ دکھانے کا مطالبہ کيا۔ انہوں نے اس پروگرام کے ذريعے نوجوان نسل کے لڑکے، لڑکيوں ميں ناجائز رشتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ اس اقدام کو تقريباﹰ تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے منفی انداز سے ديکھا اور Facebook, Twitter اور ديگر بلا گز ميں مذکورہ چينل اور میزبان مايا خان کے رويے کو غير ذمہ دارانہ قرار ديا۔

اس حوالے سے لاہور سے مہرين کسانا نامی بلاگر نے کہا ہے کہ يہ اقدام ضروی نہيں تھا اور ميڈيا کو اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہيے۔ مہرين نے تجويز پيش کی کہ اگر چينل يا ميزبان کو صارفين کی داد ہی چاہيے تھی، تو ملک ميں عورتوں سے جڑے مسائل، ذاتيات کے حوالے سے ملکی قانون يا پھر جنسی تعليم پر پروگرام کرنا چاہيے تھا۔ انہوں نے لکھا کہ نوجوان نسل ميں پيار، محبت کے احساسات قدرتی عمل ہیں اور اس معاملے کو جذباتی نہيں بلکہ حقيقت کی نگاہ سے ديکھنا چاہيے۔ مہرين کے مطابق، اس طرح لوگوں کے نجی اعمال، احساسات اور جذبات کو منظر عام پر لانا درست نہيں۔ مہرين کسانا نے مزيد لکھا ہے کہ پاکستانی معاشرے ميں پہلے ہی قدامت پسند رجحان موجود ہے اور ايسے ميں اس قسم کے پروگرام اور ميزبان کی جانب سے ’اخلاقی نگراں‘ بننے کی کوششيں نئی نسل کے ليے اچھی نہيں۔

بلاگ پر ساڑھے چار سو سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کياتصویر: picture-alliance/ dpa

مہرين کسانا کے اس بلاگ پر ساڑھے چار سو سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کيا اور دلچسپ تجزيے لکھے۔ لوگوں کی ايک بہت بڑی تعداد نے نجی چينل اور خاص طور پر ميزبان کے خلاف لکھا۔ ذيشان شفيع نامی شخص نے سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ پاکستان ايک ايسا ملک ہے جہاں آج بھی ’کارو کاری‘ جيسی رسميں موجود ہيں اور لوگوں کو بے رحمی سے مار ديا جاتا ہے، کيا ايسے حالات ميں محض چينل کی پزيرائی کی خاطر لوگوں کی جان خطرے ميں ڈالنا ذمہ دارانہ رويے کا مظاہرہ ہے۔

پاکستانی معاشرے ميں قدامت پسند رجحان موجود ہےتصویر: AP

اس پروگرام کے حوالے سے مہرين کسانا کا بلاگ ملک بھر ميں توجہ کا مرکز بنا۔ ليکن مزيد لوگوں نے بھی اپنا اظہار خيال کيا۔ سونيا رحمان کہتی ہيں کے ايک صحافی کے طور پر مايا خان کی کوئی ساکھ نہيں اور انہيں اس قسم کے موضوعات سے پرہيز کرنی چاہيے تھی۔

بابر خان پاکستان ميڈيا بلاگ پر اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ اگر ميزبان کو سماجی برائیوں پر پرگرام کرنا ہی تھا تو مختلف مصنوعات کی تعارفی تقاریب کو بے نقاب کريں جہاں شراب اور ديگر لعنتيں معمول کا حصہ ہيں۔ پاکستان ميڈيا بلاگ کے ہی پليٹ فارم پر ايک اور بلاگر، سندس بانو کہتی ہيں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکيوں کے غير ازدواجی رشتے چھوڑ کر مايا خان کو فحاشی کے اڈوں پر چھاپہ مارنا چاہيے تھا۔

پاکستانی ميڈيا اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ تنازعات کا شکار رہا ہے اور اسی طرح مختلف ميزبان اور تجزيہ کار بھی شديد عوامی ردعمل کا سامنا کر چکے ہيں۔ ليکن مايا خان کے حوالے سے رونما ہونے والے واقعہ کی خاص بات سوشل ميڈيا پر عوام کی جانب سے پيغامات کی بھرمار ہے۔ خوش آئند بات يہ ہے کہ عوام مسائل پر اپنی رائے دے رہے ہیں۔

رپورٹ: عاصم سلیم

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں