پاکستان کے معذور بچے، جنہیں کورونا میں سب نے بھلا دیا
18 جولائی 2020اگر اس بات کو یوں لکھا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اولاد کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا ہمارے معاشرے میں محض ایک سرمایا کاری ہے یعنی اولاد پر اس لیے خرچ کیا جاتا ہے کہ وہ مستقبل میں پیسہ کما کر واپس بھی دے گی۔ اس سوچ کے تحت جسمانی اور ذہنی طور پر معذور بچے اگر بہت آسانی سے اپنے تعلیمی حق سے محروم کر دیے جائیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔
اس المیے کی شدت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ جہاں لوگوں کا روزگار داؤ پر لگا وہیں کچھ والدین نے ان بچوں کو یہ کہہ کر اسکول سے اٹھوا لیا کہ ان کی تعلیم پر خرچ کر کے ویسے بھی کچھ حاصل نہیں ہونا ہے۔
چونکہ میں ایک تعلیمی پورٹل سے وابستہ ہوں لہذا اس بات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے جب میں نے حکومت کی طرف سے پیش کردہ کورونا وائرس کے تناظر میں بنے تعلیمی لائحہ عمل کا جائزہ لیا تو معذور بچوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس بیان نظر نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیے: خیبر پختونخوا میں معذور بچوں کے لیے آن لائن تعلیم
ہمارے معاشرے میں ڈاؤن سینڈروم یا آٹیزم کا شکار بچوں کے علاوہ کئی ایسے بچے بھی ہیں، جنہیں مختلف نوعیت کی ذہنی اور جسمانی معذوری کا سامنا ہوتا ہے۔ چونکہ ان بچوں میں زبان سمجھنے کی صلاحیت عام بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لہذا ان کو یہ بات سمجھانا کہ اسکول کیوں بند ہیں اور اسکول نہ جانے کی وجہ کیا ہے، ایک پیچیدہ عمل ہے۔
ایسے میں ان بچوں کو تصویروں اور ویڈیوز کی مدد سے کورونا وائرس کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جسے کچھ بچے سمجھ پاتے ہیں لیکن بہت سے بچوں کو بار بار سمجھانا پڑتا ہے۔
ان جسمانی یا ذہنی طور پر معذور بچوں کے لیے جہاں روایتی تعلیم ضروری ہے وہیں کچھ اسکولوں میں انہیں فیزیو تھیراپی جیسی ضروری سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ایسے میں ون ٹو ون آن لائن سیشن کے ذریعے ٹیچرز کا والدین کی ٹریننگ کرنا ایک مشکل عمل ہے، خاص طور پر اس وقت جب والدین تعاون کرنے پر تیار نہ ہوں۔
اسکول سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے یہ بچے ایک مسلسل الجھن کا شکار ہیں کہ ہم اسکول کب جائیں گے جبکہ حکومت کی جانب سے معذور بچوں کے اسکولوں کے لیے اب تک کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔
جب تعلیی نظام سے جڑا ہر سرا ہی تار تار ہو تو کس سے امید رکھی جائے اور کس کو اپنی بدحالی کا حال سنایا جائے؟ کہیں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تو کہیں آن لائن ریسورسز یعنی اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کی عدم موجودگی اور سب سے بڑھ کر اساتذہ اور والدین میں ٹیکنالوجی کی معلومات کا فقدان۔
یہ بھی پڑھیے: ڈاؤن سنڈروم: احمق نہیں بلکہ مختلف
ایسے میں معذور بچے، جن کو معاشرہ پہلے ہی ٹھکرا چکا ہے، اپنی بے بسی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہیں نا ان کے آج کا پتہ ہے اور نا ہی مستقبل سے کوئی امید۔ ہاں البتہ ان کی ذہنی کیفیت کے بگڑنے کا اندیشہ موجود ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بچے اب اسکول جانے اور جسمانی ورزش کے عادی ہو چکے ہیں، لہذا اسکولوں کے بند ہونے سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں بھی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
کچھ حد تک یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بہت سے والدین اس وقت نئی ٹیکنالوجی کو سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔
شاید بہت سے والدین یہ نہیں سوچ رہے کہ اسپیشل بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں دوسرے ذرائع سے معلومات فراہم ہونے سے پہلے ہی انہیں ایک آسان فہم اور موثر انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔ اگر ان بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں کسی عزیز کی موت یا میڈیا رپورٹ کے ذریعے پتا چلے تو عین ممکن ہے کہ ان کی ذہنی حالت شدید متاثر ہو۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود کچھ اساتذہ اور والدین ایسے بھی ہیں جو کورونا وائرس کی وبا کے باوجود ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت سنجیدگی، محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔ لہذا ان اساتذہ کی کوششوں اور محنت کے ساتھ ان ذہنی اور جسمانی معذور بچوں کی تعلیمی مستقبل کی ایک ہلکی سی کرن باقی ہے۔ یہ اساتذہ اپنا فرض پورا کر رہے ہیں کہ تعلیم ہر بچے کا حق ہے جو ان سے کوئی ذہنی و جسمانی مرض نہیں چھین سکتا۔