’بلا شبہ کراچی حملے کے پیچھے بھارت تھا،‘ عمران خان کا خطاب
30 جون 2020
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج پر پیر انتیس جون کو کیے گئے خونریز حملے کے پیچھے ’بلا شبہ‘ بھارت تھا۔ عمران خان نے یہ بات اس حملے کے ایک روز بعد اسلام آباد میں ملکی پارلیمان میں کہی۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت سے منگل تیس جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سربراہ حکومت نے پارلیمان میں کہا کہ اس امر میں 'کوئی شبہ نہیں‘ کہ کراچی میں ایک روز قبل کیے گئے حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔ اس حملے میں نیم خود کار ہتھیاروں اور دستی بموں سے مسلح چار حملہ آوروں نے ملکی کاروباری مرکز اور سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کر دیا تھا۔
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
عسکریت پسندوں کی اس کارروائی میں ایک پولیس اہلکار اور دو سکیورٹی گارڈز ہلاک ہو گئے تھے جبکہ چند ہی منٹوں میں موقع پر پہنچ جانے والے سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں یہ چاروں حملہ آور خود بھی مارے گئے تھے۔
بھارت کی طرف سے تردید
بھارت نے اپنی طرف سے کل اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد کہہ دیا تھا کہ اس حملے سے اس کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے آج بدھ کے روز قومی پارلیمان کے ارکان سے اپنے خطاب میں کہا، ''اس بات میں کوئی شبہ موجود ہی نہیں کہ اس حملے کے پیچھے بھارت تھا۔
گزشتہ دو ماہ سے میری حکومت کو علم تھا کہ کوئی نہ کوئی حملہ ہو سکتا تھا اور نہ صرف ملکی کابینہ کو مطلع کر دیا گیا تھا بلکہ تمام سکیورٹی ادارے بھی پوری طرح چوکنا تھے۔‘‘
اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد پاکستانی صوبہ بلوچستان میں فعال اور ملک کے کئی علاقوں میں خونریز حملے کرنے والے عسکریت پسند گروپ بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نام ایک ای میل میں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یہ حملہ اس کی کارروائی تھا۔
بی ایل اے نے فوراﹰ ذمے داری قبول کر لی تھی
اس ای میل میں کالعدم تنظیم بی ایل اے نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس حملے کی ذمے داری تو قبول کرتی ہے لیکن اس کا مقصد پاکستانی معیشت کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ حملہ 'بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردعمل میں چین کے اقتصادی مفادات کو ٹارگٹ کرنے‘ کے لیے کیا گیا تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی صوبہ بلوچستان میں سرگرم کئی کالعدم عسکریت پسند گروپوں اور تنظیموں میں سے ایک ہے۔ یہ تنظیمیں مجموعی طور پر ایک ایسے پیچیدہ سکیورٹی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہیں، جن میں بلوچ علیحدگی پسند بھی شامل ہیں، شدت پسند مسلمان بھی اور فرقہ واریت پھیلانے والے مذہبی عناصر بھی۔
بی ایل اے گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور چینی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے جو حملے کر چکی ہے، ان میں 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیا جانے والا ہلاکت خیز حملہ بھی شامل ہے اور بلوچستان میں گوادر کے قریب گزشتہ برس ایک لگژری ہوٹل پر کیا جانے والے مسلح حملہ بھی۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔