1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلدیہ فیکٹری آتشزدگی، 2 افراد کو سزائے موت کا حکم

22 ستمبر 2020

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ مزدوروں کو زندہ جلا دینے کے الزام میں گرفتار 2 ملزمان زبیر عرف چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/R. Kahn

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں سابق وزیر صنعت عبدالرؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی تھی بلکہ بھتہ نہ ملنے کی وجہ سے جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔

انصاف کی فتح

اس کیس کے پہلے تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی نے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا۔ ان کے  مطابق،’’عدالت کے حکم کے مطابق دونوں مجرموں کو انتہائی سنگین فعل پر 264 مرتبہ پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا جبکہ ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی مفرور ملزم ہیں اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔‘‘

تصویر: Raffat Saeed/DW

بہت تاخیر سے فیصلہ

تاہم سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ بہت تاخیر سے ہوا ہے حالانکہ انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت ایسے مقدمات کے فیصلے ایک ہفتے میں کرنے کا قانون ہے مگر اپیلوں اور قانونی سقم کے باعث اس سنگین مقدمے کا فیصلہ 8 سال کے بعد آیا ہے۔ مظہر عباس کا کہنا ہے،’’خدشہ ہے کہ اس مقدمے میں موجود قانونی سقم کی وجہ سے فائدہ اپیلوں کے بعد سزا پانے والے مجرموں کو ہو گا۔‘‘

ایم کیو ایم خوش

ایم کیو ایم نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی ترجمان کے مطابق سینئر رہنما رؤف صدیقی کی بریت سے ثابت ہوگیا ہے کہ ایم کیو ایم بطور پارٹی اس سنگین جرم میں ملوث نہیں ہے اور نہ کیس کے فیصلے میں ایم کیو ایم کا کوئی ذکر ہے تاہم ترجمان نے مجرمان زبیر چریا اور عبدالرحمان بھولا ایم کیو ایم کے کارکن یا مقامی عہدیدار ہونے کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی۔ 

تصویر: picture alliance/ImageBROKER

آتشزدگی

گیارہ ستمبر 2012ءکی شام حب ریور روڈ پر واقع علی انٹرپرائزئز نامی گارمنٹس فیکڑی میں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں کام کرنے والے 259 مزدور جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ ابتدا میں آتشزدگی کو حادثہ قرار دینے اور اس کی ذمہ داری فیکٹری مالکان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم مالکان کی گرفتاری اور ان کے بیانات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی منظم سازش تھی۔

آگ کیسے لگائی گئی؟

گیارہ سمتبر کی شام فیکڑی کے تمام خارجی راستے بند کر کے کیمکل کے ذریعے آگ لگائی گئی۔ فیکڑی کے اندر ایک منزل کو لکڑی کے فرش کے ذریعے دو فلوز میں تقسیم کیا گیا تھا، کھڑکیوں اور روشن دانوں پر لوہے کی گرل نصب تھی اور ہنگامی حالت میں فیکٹری سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نا ہونے کی وجہ سے ملازمین دم گھٹنے اور جل کر ہلاک ہوئے۔

سازش

فیکڑی مالکان سے ایم کیو ایم کی جانب سے 20 کروڑ روپے بھتےکا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ملزم زبیر چریا فیکٹری میں ہی ملازم تھا، جس نے ایم کیو ایم بلدیہ سیکٹر کے انچارج عبدالرحمان بھولا کے ذریعے تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کو اطلاع فراہم کی تھی کہ فیکٹری کو جرمنی سے ایک بڑا ٹھیکا ملا ہے، جس کے بعد سے پہلے بھتے کے مطالبے شروع ہوئے، جو مالکان کے انکار پر دھمکیوں میں تبدیل ہو گئے۔

سابق وزیر صنعت عبدالرؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیاتصویر: Raffat Saeed/DW

جرمن کمپنی کو ٹھیکا

 2012 ء میں آتش زدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری '' علی انٹرپرائزز‘‘ کو سب سے بڑا ٹھیکا جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK ہی سے ملا کرتا تھا۔ اس انٹرپرائز کے ذرائع کے مطابق اس فیکٹری کی پیداوار کا 70 فیصد ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KIK ہی کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ KIK کا ہیڈکواٹر جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے مضافات میں قائم ہے۔ اس واقعے میں بچ جانے والے ایک شخص اور ہلاک شدگان کے تین خاندانوں کی جانب سے جرمن ادارے کِک سے کہا گیا تھا کہ وہ فی خاندان تیس ہزار یورو ادا کرے۔

جرمن عدالت کا فیصلہ

اس واقعے کے بعد 49 سالہ پاکستانی سعیدہ خاتون، 62 سالہ محمد جابر اور 62 سالہ عبدالعزیز خان نے ایک جرمن عدالت سے رجوع کیا تھا۔ ان تینوں افراد کے بیٹے فیکٹری میں آتش زدگی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ 26 سالہ محمد حنیف بھی مدعیوں میں شامل تھے، جو اس واقعے میں بچ گئے تھے۔ جرمن شہر ڈورٹمنڈ کی عدالت نے اس پاکستانی گروپ کی جانب سے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی سے متاثرہ افراد کی جانب سے ہرجانے کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔ جرمن کاروباری ادارے کِک کے وکیل گُنٹر لیہلائٹر نے اس عدالتی فیصلے کے بعد کہا، ''یہ ایک ٹھوس فیصلہ ہے کیوں کہ یہ آتش زدگی ایک دہشت گردانہ واقعہ تھا اور اس کا فیکٹری کی حالت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘

سانحہ بلدیہ ٹاؤن، ایک متاثرہ ماں کی الم ناک داستان

02:30

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں