بلغاریہ کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں حصہ لینے والے مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے قبل ترک سرحد کے قریب واقع ملک کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بلغاریہ کے وزیر اعظم بوئکو بورسیف کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث ہونے والے مہاجرین کو ’تنہا‘ کرنے کے لیے آئندہ ہفتے تک انتظامات کر لیے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو قانون پر عمل نہیں کرنا چاہتے، انہیں تنہا کر دیا جائے گا۔
بورسیف کے مطابق ان مہاجرین کو ہارمانلی میں واقع اس مہاجر کیمپ میں منتقل کیا جائے گا، جو ماضی میں فوجی بیرکس کے لیے بھی استعمال کی جاتی تھی۔ یہ مقام ترکی کی سرحد کے قریب ہی واقع ہے۔ فی الحال اس کیمپ میں کم ازکم تین ہزار مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر افغان اور شامی ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق جمعرات کے دن سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث ہونے والے جوان افغان مہاجرین کو اس کیمپ میں بند رکھا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ان مہاجرین نے کیمپ میں آگ لگائی تھی اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔ صوفیہ حکومت کے مطابق ان مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے قبل اسی مہاجر کیمپ میں رکھا جائے گا۔
بورسیف کے مطابق، ’’ان مہاجرین کو جلد از جلد بلغاریہ سے نکال دیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں انتظامی اور قانونی کارروائی میں مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہو گا۔ ممکنہ طور پر ان مہاجرین کو دسمبر میں بلغاریہ چھوڑنے کا حکم دے دیا جائے گا۔ تاہم ملک بدر کیے جانے والوں میں شامی کبنے شامل نہیں ہوں گے۔
مہاجرین جیل خانوں میں خوش
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
10 تصاویر1 | 10
بورسیف کے مطابق ہارمانلی کے مہاجرین کے ایک ’استقبالیہ سینٹر‘ پر جمعرات کے دن ہونی والی جھڑپوں میں زیادہ تر افغان مہاجرین نے حصہ لیا تھا، جن میں کچھ باقاعدہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے مہاجرین بھی شامل ہیں۔ اس تصادم میں تقریبا پندرہ سو مہاجرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا اور ٹائر جلائے تھے۔ جب سکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش تو باقاعدہ ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ تب پولیس نے چار سو مہاجرین کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد بلغاریہ کے مختلف مہاجر کیمپوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ اگرچہ مارچ کے بعد بلقان راستوں کی بندش کے بعد غیرقانونی مہاجرین کی نقل و حرکت محدود ہوئی ہے لیکن پھر بھی کچھ مہاجرین یورپی یونین میں داخل ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ صوفیہ حکومت کے مطابق اس وقت بلغاریہ میں تیرہ ہزار مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد افغان باشندوں کی ہی ہے۔