1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبلغاریہ

بلغاریہ، مہاجرین کی بس کو روکنے والے دو پولیس اہلکار ہلاک

25 اگست 2022

بلغاریہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی ایک بس کو روکنے کی کوشش کرنے والے دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ امیر یورپی ممالک کی طرف جانے والے مہاجرین براستہ بلغاریہ وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Türkei Tränengaseinsatz gegen Flüchtlinge an der Grenze zu Griechenland
تصویر: picture-alliance/AA/H. M. Sahin

بحیرہ اسود پر واقعے شہر بُرگاس میں یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب بس ڈرائیور نے شہر کی حدود ختم ہوتے ہی بارڈر کراسنگ پر بنی پولیس چوکیوں پر بس روکنے سے انکار کر دیا۔ یہ تفصیلات بلغاریہ کی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے رپورٹرز کو بتائیں۔ اطلاعات کے مطابق ترک رجسٹریشن نمبر پلیٹ والی بس میں 47 تارکین وطن سوار تھے، جن کی قومیت ظاہر نہیں کی گئی۔

پولیس کے ساتھ تصادم

غیر قانونی تارکین وطن سے بھری یہ بس ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئی تو پولیس نے اپنی گاڑی اس بس کے سامنے کھڑی کی اور اسے روکنے کی کوشش کی۔ بس رُکنے کی بجائے پولیس کی گاڑی کو روندتی ہوئی ساتھ ہی واقع ایک بس اسٹاپ سے جا ٹکرائی۔

 اس دوران پولیس کار میں سوار دونوں اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تاہم مزید کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع  نہیں ملی۔ اس واقعے کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔

پاکستان، افغانستان اور شام سے ہزاروں افراد کی اسمگلنگ کرنے والا نیٹ ورک گرفتار

بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیا میں عراقی پناہ گزینوں کا مرکزتصویر: Jodi Hilton

بلغاریہ کی جغرافیائی اہمیت

بلغاریہ بلقان خطے کا سات ملین کی آبادی والا ملک ہے۔ اپنی جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے یورپ کی طرف آنے والے مہاجرین کے لیے یہ ایک اہم روٹ مانا جاتا ہے۔ یہ راستہ اختیار کرنے والے تارکین وطن کی ایک چھوٹی سی تعداد  اسی ملک میں رہنے کا ارادہ کر لیتی ہے جبکہ زیادہ تر تارکین وطن بلغاریہ کو امیر یورپی ممالک میں آنے کے لیے ایک راہداری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

یورپی ممالک کی طرف سے امتیازی سلوک

دنیا بھر سے یورپ کا رُخ کرنے والے پناہ گزین، خاص طور سے طویل خانہ جنگی اور سیاسی بحران کے شکار عرب ممالک کے باشندے یورپی ممالک کے دوہرے معیار کی شکایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ نے روس کی جنگ کے بعد یوکرینی پناہ گزینوں کو، جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، وہ یورپی ممالک کے دوہرے معیار کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ٹرکوں سے چھلانگ لگا کر، برطانیہ پہنچنے کی کوشش: تارکین وطن کا کیا بنے گا؟

 

ترکی کی سرحد پر بورڈر پولیس کا گشتتصویر: Jodi Hilton

2021 ء کے اوائل تک شام کا تنازعہ شروع ہونے کے 10 سال بعد یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے 10 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دی تھی۔ ان میں سے تنہا جرمنی نے آدھے سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ دیگر یورپی ممالک نے ان مہاجرین کو انتہائی بددلی سے قبول کیا تھا اور کچھ نے تو ایسا کرنے سے بالکل ہی انکار کر دیا تھا۔

کچھ عرصہ قبل بلغاریہ کے وزیر اعظم کیرل پیٹکوف نے عرب مہاجرین کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا،'' ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے تارکین وطن یا پناہ گزینوں کا کیا کیا جائے، جن کا ماضی  غیر واضح ہے۔‘‘

اب بلغاریہ کے وزیر اعظم نے یوکرینی مہاجرین کو قبول کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ ''یوکرینی باشندے ذہین، تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔‘‘

ک م/ ا ا (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں