فہیم جبار ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کے سفر پر نکلا تھا۔ لیکن سرحدیں بند ہو جانے کے بعد وہ بھی سینکڑوں دیگر مہاجرین کی طرح بلغاریہ میں پھنس گیا، جہاں امن تو ہے لیکن مہاجرین کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔
اشتہار
بلقان کی ریاستوں کی جانب سے گزشتہ برس جب اپنی اپنی قومی سرحدیں بند کر دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا، تو جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب گامزن سینکڑوں مہاجرین غریب ترین یورپی ممالک میں سے ایک بلغاریہ میں پھنس گئے تھے۔ شام سے تعلق رکھنے والا فہیم بھی انہی میں سے ایک ہے۔ بلغاریہ میں مہاجرین محفوظ تو ہیں لیکن انہیں خوش آمدید نہیں کہا جاتا اور روزگار کے حصول کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بلغاریہ میں ماہانہ اوسط تنخواہ 510 یورو ہے، جو مغربی یورپی ممالک کی اوسط تنخواہ کا ایک تہائی بنتی ہے۔ ریاست کی جانب سے مہاجرین کو فراہم کردہ سہولیات بھی تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بحیرہ اسود میں تارکین وطن
01:54
فہیم اور اس کے اہل خانہ سن 2016 میں تباہ حال شامی شہر حلب سے یورپ کے سفر پر نکلے تو ان کے خواب کچھ اور تھے لیکن انہوں نے خود کو بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کے نواح میں مہاجرین مخالف مظاہرین کے سامنے کھڑا پایا۔ ستاون سالہ فہیم نے اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ ہم نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف مزاحمت کی تھی اور ہم آپ کو بھی قبول نہیں کریں گے، ہم تمہیں کرسچین بنا دیں گے۔‘‘
فہیم کو اپنے خاندان کے ہمراہ ایلن پیلن نامی ایک بلغارین قصبے میں رکنا پڑا لیکن صوفیہ کے اس نواحی قصبے کا میئر خود بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک قوم پرست سیاست دان تھا جس نے فہیم اور اس کے خاندان کو رہائشی اجازت نامہ دینے سے انکار کر دیا۔
فہیم کی بیوی فاطمہ بتاتی ہے کہ اس وقت ’ہم واپس گھر آ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ اس کے بعد ہم دو ماہ تک گھر سے باہر نہیں نکلے‘۔ خوش قسمتی سے ان کے بیٹے محمد کو بلغاریہ میں نوکری مل گئی تھی۔ اس عرصے میں محمد اپنے والدین کے لیے کچھ کھانے پینے کے سامان کا بندوبست کرتا رہا۔
سن 2013 سے لے کر اب تک بلغاریہ میں ساٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ فہیم اور اس کے خاندان کا تجربہ تو بہت برا رہا تھا لیکن پناہ کے متلاشی دیگر افراد کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
مہاجرت سے متعلقہ امور پر نظر رکھنے والے یاور سیدروف کا کہنا ہے کہ بلغاریہ میں سماجی سطح پر مہاجرین مخالف جذبات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار میڈیا سے لے کر سیاست دانوں اور عوام تک میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔
دوسری جانب بلغاریہ کو افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے اور سیدروف کے بقول حکومت بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاجرین کو روزگار کی منڈی تک لانا چاہتی ہے تاکہ وہ ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
اس مشرقی یورپی ملک میں پھنسے تارکین وطن اور مہاجرین میں شامی باشندوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کی نمایاں تعداد بھی موجود ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘