بلغاریہ کی ایک ٹی وی میزبان کے قتل کے بعد یورپ بھر میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے۔
اشتہار
لغاریہ کی ایک ٹیلی وژن میزبان وکٹوریا مارینووا کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک اکیس سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔ صوفیہ حکام نے تصدیق کی ہے کہ مشتبہ شخص قتل کی اس واردات کے بعد جرمنی فرار ہوا تھا، جسے منگل کی شام پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
بلغاریہ کے مستغیث اعلیٰ سوتیر ساتساروف نے بتایا کہ اکیس سالہ سیویرن کراسیمیروف کو حراست میں لیا گیا ہے۔ کراسیمیروف بلغاریہ کا شہری ہے۔ جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے حکام نے بتایا ہے کہ مشتبہ شخص کو ہیمبرگ شہر کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔ اس کے یورپی ورانٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
بلغاریہ کے دفتر استغاثہ کے مطابق مشتبہ شخص سے جاری تفتیش کے دوران ابھی تک اس واقعے اور مقتولہ کے صحافتی کام کے درمیان کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔
تیس سالہ مارینووا مقامی ٹیلی وژن چینل ’ ٹی وی این‘ سے وابستہ تھیں۔ ان کی لاش ہفتے کو دریائے ڈینیوب کے کنارے آباد شہر ’روسے‘ کے ایک پارک سے ملی تھی۔ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، تشدد کیا گیا اور بعد ازاں گلا دبا کر ہلاک کر دیا گیا۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
بلغاریہ کے وزیر داخلہ نے بتایا کہ تفتیش کاروں کو مارینووا کے جسم اور کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے بعد یہ گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ مقامی میڈیا نے بتایا کہ کراسیمیروف کی والدہ جرمنی میں رہتی ہیں۔
کراسیمیروف ہفتے کی دوپہر روسے شہر سے ایک پل پار کر کے رومانیہ میں داخل ہوا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ملزم کو دھاتی کوڑا کرکٹ چوری کرنے کے الزام میں پولیس پہلے بھی گرفتار کر چکی ہے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران سلواکیہ اور مالٹا میں سرکاری محکموں میں بدعنوانی کی چھان بین کرنے والے دو صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔